احساس

                 یہ کہانی لاہور  میں رہنے والے بچے عمران کی ہے، جو کہ بہت ذہین اور دل کا اچھا لڑکا تھا۔ عمران ہمیشہ دوسروں کی مدد کرنے میں خوشی محسوس کرتا تھا، لیکن وہ ایک بات کو سمجھنے میں مشکل محسوس کرتا تھا: “احساس” کیا ہوتا ہے۔

                ایک دن، عمران کی والدہ نے اسے اپنے پاس بلایا اور کہا، “بیٹا، آج تمہیں ایک نیا سبق سکھانا ہے۔ یہ سبق بہت اہم ہے اور زندگی میں اس کا بہت بڑا کردار ہے۔” عمران نے خوش ہو کر پوچھا، “امی! وہ کون سا سبق ہے؟”

          عمران کی والدہ نے نرمی سے کہا، “یہ سبق احساس کا ہے۔ احساس کا مطلب ہے کہ ہم دوسروں کے جذبات اور ضروریات کو سمجھیں اور ان کا خیال رکھیں۔

عمران نے تھوڑا سا سوچا اور کہا، “امی! کیا آپ مجھے اس کی کوئی مثال دے سکتی ہیں؟”

“ضرور،” عمران کی والدہ نے کہا، “دیکھو، جب تمہارا چھوٹا بھائی زین کھیلتے ہوئے گر جاتا ہے اور رونے لگتا ہے، تو تم اسے تسلی دیتے ہو اور اسے اپنے گلے لگا لیتے ہو۔ یہ احساس ہے کہ تم نے اس کے درد کو محسوس کیا اور اس کی مدد کی۔”

                  عمران نے سر ہلا کر کہا، “امی، کیا جب آپ نے ہمارے لیے  کھانا بنایا تھا اور مجھے سبزیاں پسند   نہیں آ ئی  تو آپ نے چکن بنا دیا تھا ، تب بھی یہ احساس تھا؟”

اس کی والدہ مسکرائیں اور کہا، “بالکل بیٹا! تم نے صحیح سمجھا۔ جب میں نے دیکھا کہ تمہیں سبزیاں پسند نہیں، تو میں نے تمہارے لیے وہ چیزیں بنائیں جو تمہیں پسند ہیں۔ یہ بھی احساس کی ایک مثال ہے۔”

            عمران کے لیے یہ نیا تصور بہت دلچسپ تھا۔ وہ جاننا چاہتا تھا کہ احساس اور کہاں کہاں ہوتا ہے۔ اس نے اپنی والدہ سے پوچھا، “امی، کیا ہمارے دین اسلام میں بھی احساس کا ذکر ہوتا ہے؟”

        عمران کی والدہ نے کہا، “جی ہاں، ہمارے پیارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں ہمیشہ دوسروں کے احساسات کا خیال رکھنے کی تعلیم دی ہے۔ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ ‘مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔’ اس کا مطلب ہے کہ ہمیں ہمیشہ دوسروں کے احساسات کا احترام کرنا چاہیے اور ان کے ساتھ نرمی سے پیش آنا چاہیے۔”

عمران نے غور سے سنا اور پھر پوچھا، “امی، کیا میں بھی احساس کا مظاہرہ کر سکتا ہوں؟”

                 عمران کی والدہ نے پیار سے کہا، “بالکل بیٹا! تم ابھی سے یہ سیکھ سکتے ہو کہ کیسے دوسروں کے احساسات کا خیال رکھنا ہے۔ جیسے کہ اگر تم دیکھو کہ کسی دوست کے پاس نئی چیزیں نہیں ہیں اور تمہارے پاس ہیں، تو تم اسے اپنی چیزیں شیئر کر سکتے ہو۔ جب تم کسی کو مشکل میں دیکھو تو اس کی مدد کر سکتے ہو۔”

                   اگلے دن، عمران اسکول گیا اور اپنی امی کی باتیں یاد رکھیں۔ وقفے کے دوران، اس نے دیکھا کہ اس کا دوست علی اکیلا بیٹھا ہوا ہے اور خاموش ہے۔ عمران نے محسوس کیا کہ علی کچھ پریشان ہے۔ وہ علی کے پاس گیا اور نرمی سے پوچھا، “علی، تم ٹھیک ہو؟ تمہاری طبیعت ٹھیک نہیں لگ رہی۔”

         علی نے سر جھکا کر کہا، ” عمران ، میرے والد کا کام ختم ہو گیا ہے اور وہ بہت پریشان ہیں۔ گھر کا خرچ چلانا مشکل ہو رہا ہے۔”

              عمران نے علی کے دکھ کو محسوس کیا اور کہا، “علی، فکر مت کرو۔ اللہ پر بھروسہ رکھو، وہ ہمیشہ ہماری مدد کرتا ہے۔ اگر تمہیں کسی چیز کی ضرورت ہو تو مجھے بتانا، میں تمہاری مدد کروں گا۔”

                     عمران کی اس بات نے علی کو تھوڑا سکون دیا اور اس نے عمران کا شکریہ ادا کیا۔ عمران کو بہت خوشی ہوئی کہ اس نے اپنے دوست کا دکھ بانٹ کر اس کی مدد کی۔

شام کو، عمران نے اپنی امی کو سارا واقعہ سنایا۔ اس کی والدہ نے اسے گلے لگا کر کہا، “تم نے آج بہت اچھا کام کیا، بیٹا! تم نے سچ میں احساس کا مظاہرہ کیا ہے۔”

عمران نے مسکرا کر کہا، “امی، میں نے آپ سے سیکھا ہے کہ دوسروں کے جذبات کا خیال رکھنا اور ان کی مدد کرنا کتنا اہم ہے۔”

شام کو جب عمران کے والد گھر   آے  تو  عمران نے اپنے والد سے کہا ، ابو جان میرا ایک دوست ہے وہ آج بہت پریشان تھا۔۔

ابو!    کیوں بیٹا؟  ایسا کیا ہوا کے آپ کا دوست پریشان تھا ؟سب خیریت تو تھی ؟

عمران!      نہیں ابو جان خیریت نہیں تھی۔

ابو!           الله رحم کرے ۔کیا ہوا بیٹا ؟ آپ پوری بات تو بتاؤ ۔

عمران نے اپنے والد کو پورا قصہ سنایا اور درخواست کی ، کہ کیا آپ مدد کر سکتے ہیں ؟ میں نے اپنے دوست سے مدد کرنے کا وعد ہ کیا ہے ۔

          ٹھیک ہے بیٹا ، میں ضرور کوشش کروں گا ۔ ابھی تو میں تھکا ہوا آیا ہوں ۔مجھے آرام کرنے دو ،  آپ پڑھائی کرو ، اور عمران کی امی آپ مجھے اچھی سی  چاے  پلا دیں۔ .

عمران کی امی مسکراتے ہوے  بولیں ، ٹھیک ہے آپ ہاتھ منہ  دھو لیں ، میں چاے  پکوڑے لاتی ہوں ۔

عمران اپنے کمرے میں پڑھائی کرنے کی نیت سے جاتا ہے کہ اس کے والد نے عمران کو بولا یا ،

عمران ادھر آو ۔

عمران اپنے والد کے پاس آیا ، جی ابو ؟

ابو!  عمران آج مجھے آپ پر فخر محسوس ہو رہا ہے ، کہ آپ نے اپنے دوست کا احساس کیا اور اس کے درد کو اپنا درد سمجھا ، اور اس کی مدد کے  لئے کوشش کی۔ .

         یاد رکھنا! بیٹا ، ہم مسلمان ہیں ۔ اور ہم  اچھا مسلمان تب ہی بن پاتے ہیں ۔جب ہم رحم کرتے ہیں ، احساس کرتے ہیں ۔ اور کوشش کرتے ہیں  کے ہمارے آس پاس کے لوگ خوش رہے۔ اور   الله   بھی  ان سے محبّت رکھتا ہے جو الله کے بندوں سے محبّت رکھے ۔

        آپ  علی  سے کہنا کے وہ اپنے والد کو میرے آفس آنے کا بول دے ، اب آپ بےفکر ہو کر پڑھائی کرو ،

           اور عمران کے والد نے علی کے  والد کو نہ صرف اپنے آفس میں نوکری دی بلکہ پیشگی  تنخو ا ہ  بھی دی۔   علی  عمران کا بہت شکر گزار  تھا ، اور اس طرح وہ بہت اچھے دوست بھی بن گئے۔

                    اس دن کے بعد سے عمران نے ہمیشہ کوشش کی کہ وہ اپنے اردگرد کے لوگوں کے جذبات کو سمجھے اور ان کی مدد کرے۔ وہ اپنے چھوٹے بھائی، دوستوں اور گاؤں کے لوگوں کے ساتھ محبت اور نرمی سے پیش آتا تھا۔

              کہانی کا پیغام یہ ہے کہ احساس ایک بہت بڑی نعمت ہے جو اللہ نے ہمیں عطا کی ہے۔ ہمیں اس نعمت کو پہچان کر اسے اپنی زندگی کا حصہ بنانا چاہیے تاکہ ہم ایک دوسرے کے دکھ درد کو سمجھ سکیں اور ایک بہتر اور محبت بھری دنیا بنا سکیں۔ عمران کی کہانی ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ احساس کا مطلب صرف دوسروں کے جذبات کا خیال رکھنا ہی نہیں بلکہ ان کی مدد کرنا اور ان کے ساتھ نرمی سے پیش آنا بھی ہے۔

یوں عمران نے اپنے عمل سے ثابت کیا کہ احساس کا مطلب ہے دوسروں کی خوشی اور غم میں شریک ہونا اور یہی چیز ہمیں ایک بہتر انسان بناتی ہے۔

 

 

 

Leave A Reply

Please enter your comment!
Please enter your name here