ایک دیہاتی کا واقعہ
ایک دیہاتی مسجد نبوی میں آیا ۔ ۔۔۔ حضور پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم صحابہ کرام کے ساتھ مسجد نبوی میں بیٹھے تھے ۔۔۔ اس دیہاتی نے جلدی جلدی دو رکعت نماز پڑھی ۔اور نماز کے بعد عجیب و غریب دعا مانگی ۔
کے “اے اللّه ! مجھ پر اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر رحم کیجیے اور کسی پر رحم نہ کریں۔ “
حضور پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اس کی یہ دعا سن کر فرمایا کہ تم نے اللّه کی وسیع رحمت کو تنگ کر دیا ہے ۔تھوڑی دیر بعد اس
عرا بی نے مسجد نبوی کے صحن میں بیٹھ کر پیشاب کر دیا ۔
صحابہ کرام نے جب اس کو یہ حرکت کو دیکھا تو اس کو روکنے کے لیے اس کی طرف دوڑے ۔۔۔۔اور اس کو برا بھلا کہنا شرو ع کر دیا ۔ جب حضور پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے دیکھا تو آپ نے صحابہ کرام کو روکا کے اس کا پیشاب بند مت کرو ۔اس کو پیشاب کرنے دو ۔ جب وہ پیشاب کر چکا تو پھر صحابہ کرام سے فرمایا کے اب جا کر مسجد کو دھو کر پاک صاف کر دو ۔
پھر اس عرا بی کو بولا کر سمجھایا کے مسجد اس مقصد کے لیے نہیں ہے کے اس میں گندگی کی جائے ۔ اور اس کو ناپاک کیا جائے ۔
یہ تو اللّه کا گھر ہے اس کو پاک رکھنا چاہیے ۔۔۔ اس طرح اس کو پیار شفقت کے ساتھ سمجھایا . آج ھمارے سامنے کوئی اس طرح پیشاب کرے تو ہم اس کی تكہ بوٹی کر دیں ۔۔ لیکن حضور پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اس کو ڈانٹا تک نہیں۔
انداز تبلیغ۔
اس حدیث کے ذریعے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ہمیں تبلیغ دعوت کے آداب بتائے۔
آج یا تو لوگوں کے اندر دعوت و تبلیغ کا جذبہ ہی پیدا نہیں ہوتا ، لیکن اگر کسی کے دل میں یہ جذبہ پیدا ہو گیا تو بس اب دنیا والوں پر آفت آگئی ۔۔۔۔۔۔۔۔کسی کو بھی مسجد کے اندر کوئی غلط کام کرتے ہوئے دیکھ لیا تو اب اس کو ڈانٹ ڈپٹ شروع کر دی۔۔۔۔ یہ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت نہیں ہر بات کہنے کا ایک ڈھنگ اور سلیقہ ہوتا ہے اس ڈھنگ سے بات کہنی چاہیے اور دل میں یہ جذبہ ہونا چاہیے کہ یہ اللہ کا بندہ ایک غلطی میں کسی وجہ سے مبتلا ہو گیا ہے میں اس کو صحیح بات بتا دوں تاکہ یہ راہ راست پر آ جائے ۔۔۔۔اپنی بڑائی جتانے کا جذبہ یا اپنا علم بکھارنے کا جذبہ نہ ہو کیونکہ یہ جذبہ دعوت کے اثر کو ختم کر دیتا ہے۔