حضرت شاہ اسماعیل رحمۃ اللہ کا اخلاص
حضرت شاہ اسماعیل شہید رحمت اللہ علیہ کا واقعہ ہے کہ ایک مرتبہ دلہی کی جامع مسجد میں ڈیڑھ دو گھنٹے کا واعظ فرمایا ۔۔۔۔۔ واعظ سے فارغ ہونے کے بعد آپ جامع مسجد کی سیڑھیوں سے نیچے اتر رہے تھے۔ اتنے میں ایک شخص بھاگتا ہوا مسجد کے اندر آ یا اور آ پ ہی سے پوچھا کہ کیا مولوی اسماعیل صاحب کا واعظ ختم ہو گیا ہے ؟ آ پ نے جواب دیا کہ ہاں بھائی، ختم ہو گیا اس نے کہا کہ مجھے بہت افسوس ہوا اس لیے کہ میں تو بہت دور سے واعظ سننے کے لیے آیا تھا۔
آ پ نے پوچھا کہاں سے آئے تھے ؟اس نے جواب دیا کہ میں فلاں گاؤں سے آیا تھا اور اس خیال سے آیا تھا کہ میں ان کا واعظ سنوں گا افسوس کہ ان کا واعظ ختم ہو گیا اور میرا آنا بیکار ہو گیا ،حضرت مولانا نے فرمایا کہ تم پریشان مت ہو میرا ہی نام اسماعیل ہے آؤ یہاں بیٹھ جاؤ چنانچہ اس کو وہیں سیڑھیوں پر ہی بٹھا دیا فرمایا کہ میں نے ہی واعظ کہا تھا میں تمہیں دوبارہ سنا دیتا ہوں جو کچھ میں نے واعظ میں کہا تھا چنانچہ سیڑھیوں پر بیٹھ کر سارا واعظ دوبارہ دہرا دیا بعد میں کسی شخص نے کہا کہ اے حضرت ، آپ نے کمال کر دیا کہ صرف ایک آدمی کی خاطر پورا واعظ دوبارہ دہرا دیا جواب میں حضرت مولانا نے فرمایا کہ میں نے پہلے بھی ایک ہی کے خاطر واعظ کہا تھا اور دوبارہ بھی ایک ہی کی خاطر واعظ کہا یہ مجمع کوئی حقیقت نہیں رکھتا۔ جس میں ایک اللہ کی خاطر پہلی بار کہا تھا دوسری مرتبہ بھی اسی ایک اللہ کی خاطر کہہ دیا۔ یہ تھے حضرت مولانا شاہ محمد اسماعیل شہید رحمت اللہ علیہ۔۔۔۔۔ ایسا جذبہ اللہ تعالی نے ان کے دل میں پیدا فرما دیا تھا ۔۔۔۔۔اللہ تعالی اپنی رحمت سے اس اخلاص اور اس جذبے اور اس بے چینی اور بے تابی کا کوئی حصہ ہمارے دلوں میں بھی پیدا فرما دے۔۔۔۔۔ کہ ان منکرات کو دیکھ کر یہ بے چینی اور بے تابی پیدا ہو جائے کہ ان کی رات کو کس طرح ختم کیا جائے اور کس طرح مٹایا جائے۔۔۔ یاد رکھیے، جس دن ہمارے دلوں میں یہ بے تابی اور بے چینی پیدا ہو گئی اس دن آدمی کم از کم اپنے گھر کی اصلاح تو ضرور کر لے گا اگر گھر کے اصلاح نہیں ہو رہی۔۔۔۔ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ایسی بے چینی دل میں موجود نہیں ہے بلکہ آدمی وقت گزار رہا ہے ۔
خلاصہ
بہرحال ہر انسان کے ذمے انفرادی تبلیغ فرض عین ہے’ جب انسان اپنے سامنے کوئی برائی ہوتی ہوئی دیکھے تو اس برائی کو ختم کرنے کی کوشش کرے’ پہلے ہاتھ سے ختم کرنے کی کوشش کریں اور اگر ہاتھ سے نہ ہو سکے تو زبان سے روکنے کی کوشش کریں اور اگر زبان سے نہ ہو سکے تو دل سے اس کو برا سمجھے۔