حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ کی زندگی کے عظیم الشان واقعات( حصہ اول)

کشف و کرامت

 ہاتھ گل سڑ گیا

 حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے ۔۔کہ امیر المومنین حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہا مسجد نبوی صلی اللہ علیہ والہ وسلم میں ممبر نبوی پر جمعہ کا خطاب دے رہے تھے۔۔ کہ ایک بدبخت جس کا نام ”جہاہ غفاری ”تھا۔۔۔۔ اس نے آگے بڑھ کر آپ رضی اللہ تعالی عنہ سے عصا مبارک چھین کر اسے توڑ ڈالا ۔۔۔آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنی حلیم الطبع  کی وجہ سے اس شخص کو کچھ نہ کہا ۔۔۔لیکن اللہ تعالی کا قہر اس شخص پر نازل ہوا اور اس کا وہ ہاتھ جس سے اس نے آپ رضی اللہ عنہ سے عصا   چھینا   تھا   ۔۔وہ ہاتھ آہستہ آہستہ گل سڑ گیا اور ایک سال بعد وہ شخص بھی مر گیا۔۔۔۔۔

 تلوار اپنی گردنوں پر رکھ لو گے

 حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ نے جب بلوائیوں کو دیکھا …کہ وہ ان کو شہید کرنے کے      در  پے ہیں ۔۔۔تو آپ رضی اللہ تعالی عنہ  نے ان کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا !  تین آدمیوں کے علاوہ کسی کا قتل جائز نہیں۔۔ ایک زانی  ‘دوسرا مرتد ‘ اور  تیسرا قاتل بغیر حق  ‘  کا   ۔کیا تم مجھے ان تینوں جرائم میں سے کسی جرم کا مرتکب پاتے ہو ؟  یاد رکھو!  اگر تم نے مجھے قتل کر ڈالا تو تم نے تلوار کو اپنی گردنوں پر رکھ لیا  ۔۔۔اور پھر اللہ تعالی تم میں سے اختلاف کو ختم نہ کرے گا۔۔۔ چنانچہ آپ رضی اللہ تعالی عنہ کا یہ فرمان حرف بہ حرف سچ ثابت ہوا۔۔۔۔ اور آپ رضی اللہ تعالی عنہ پر تلوار چلانے والے سودان بن عمران کو حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ کے ایک غلام نے قتل کیا ۔۔۔حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ کی زوجہ سے  تلوار چھیننے والے کو ایک اور غلام نے قتل کیا ۔۔۔ محمد بن ابی بکر کو مصر میں قتل کیا گیا۔۔۔ بشیر بن کنانہ شامی فوج کے ہاتھوں مارا گیا ۔۔۔عمر و بن الحمق  کو بھی شامی فوج نے قتل کیا ۔۔۔

 گستاخی کی سزا

 حضرت ابو فلابہ  رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ میں ملک شام میں موجود تھا۔۔۔ میں نے ایک شخص کو با آواز بلند صدا لگاتے دیکھا ۔۔کہ میں جہنمی ہوں۔۔ میں اس شخص کے پاس گیا تو دیکھا کہ اس کے دونوں ہاتھ اور پاؤں کٹے ہوئے تھے۔۔ اور وہ دونوں آنکھوں سے اندھا تھا۔۔ اور زمین پر چہرے کے بل اوندھا گرا ہوا تھا ۔۔میں نے اس شخص سے پوچھا تیرا یہ حال کیسا ہے؟؟ اس شخص نے کہا کہ  میرے حال کے متعلق مت پوچھو،۔۔ میں ان بدنصیب لوگوں میں سے ہوں۔۔ جنہوں نے حضرت سیدنا عثمان کو قتل کرنے کا ارادہ کیا ۔۔اور ان کے گھر میں داخل ہوا ۔۔جب میں حضرت سیدنا عثمان غنی کو قتل کرنے کے لیے ان کے نزدیک پہنچا تو ان کی زوجہ نے مجھے ڈانٹ پلائی۔۔ جس پر میں نے انہیں تھپڑ مار دیا ۔۔حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ نے میری اس حرکت پر فرمایا ! اے بدبخت اللہ تعالی تیرے دونوں ہاتھ اور پاؤں کاٹ دے۔۔ اور تیری دونوں آنکھیں اندھی کر دے اور تجھے جہنم میں ڈال دے ۔۔۔۔ میں حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ کے الفاظ سن کر کانپ اٹھا۔۔ اور میرے جسم پر لرزہ طاری ہو گیا ۔۔۔میں وہاں سے بھاگ گیا ۔۔۔

                      حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ کی باتیں پوری ہوئیں اور میرے دونوں ہاتھ پاؤں کٹ گئے۔۔ اور میری آنکھیں اندھی ہو گیں اب مجھے یہ بھی یقین ہے کہ ان کی بات کہ میں جہنم میں ڈالا جاؤں گا ۔۔۔تو میں اپنی اس حرکت پر پچھتاتا ہوں۔۔ اور اسی وجہ سے اپنی جہنمی ہونے کا بھی اقرار کرتا ہوں۔۔۔

حضور کریم صلی اللہ علیہ ہ وسلم کے پاس جا کر روزہ افطار کرنا

              حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ جب بلوائیوں نے حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ کے مکان کا محاصرہ کر لیا ۔۔اور آپ رضی اللہ تعالی عنہ کے گھر کا پانی بند کر دیا ۔۔۔تو اس دوران میں آپ رضی اللہ تعالی عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا  ۔۔آپ رضی اللہ تعالی عنہا روزہ سے تھے۔۔۔ میں نے آپ رضی تعالی عنہ کو سلام کیا اور آپ رضی اللہ تعالی عنہ کی خدمت میں عرض کیا ! کہ اگر آپ رضی اللہ تعالی عنہ کہیں تو میں پانی کا کچھ انتظام کروں؟؟ حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ آج مجھے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت با سعادت نصیب ہوئی۔۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا  ! کہ اے عثمان رضی اللہ تعالی عنہا ظالموں نے تیرا پانی بند کر دیا ہے۔۔ اور تو پیاس سے بے قرار ہے ۔۔میں نے عرض کیا ! یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  ، 

جی ہاں  ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے نے اپنی دریچی سے ایک ڈول میری جانب لٹکایا   ۔۔جو کہ نہایت شیریں اور ٹھنڈے پانی سے بھرا ہوا تھا۔۔۔ میں نے اس پانی کو پیا اور سیراب ہو گیا۔۔۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے  مجھ سے فرمایا  ! اے عثمان ! اگر تم چاہو تو میں ان باغیوں کے مقابلے میں تمہاری مدد فرماؤں؟؟ یا پھر تم چاہو تو روزہ میرے پاس آ کر افطار کرو۔۔۔ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بات سن کر عرض کیا!  یا رسول اللہ!  صلی اللہ علیہ وسلم   آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ روزہ افطار کرنا میں اپنی سب سے بڑی خوش نصیبی سمجھتا ہوں۔۔۔۔ اے عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ   ،،،،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ڈول سے میں نے جو پانی پیا اس کی ٹھنڈک میں اب بھی اپنی چھاتی پر محسوس کرتا ہوں ۔۔۔۔حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں!  کہ میں آپ رضی اللہ تعالی عنہ سے اجازت لے کر واپس آگیا  ۔۔ اور اسی شام آپ رضی اللہ تعالی عنہ کو شہید کر دیا گیا۔۔ اور جس وقت آپ رضی اللہ تعالی عنہ کو شہید کیا گیا ۔۔۔ اس وقت آپ رضی اللہ تعالی روزے سے تھے۔۔۔۔

Leave A Reply

Please enter your comment!
Please enter your name here