حضرت عمر فاروق کا الله سے ڈر

 

حضرت سیدنا عباس رضی اللہ تعالی عنہ کی توقیر

 حضرت حسن رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے!  کہ حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ بیت المال میں لوگوں کو مال تقسیم کر رہے تھے ۔۔کہ کچھ مال بچ گیا ۔حضرت سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے آپ رضی اللہ تعالی عنہ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا  !اگر موسی علیہ السلام کے چچا زندہ ہوتے تو کیا تم لوگ ان کی عزت نہ کرتے؟

             حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ اور دیگر حاضرین نے بیک زبان ہو کر کہا ! کہ ہاں ہم ان کی عزت کرتے۔ حضرت سیدنا عباس رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا !  تو کیا میں تمہارے نزدیک اس بچے ہوئے مال کا زیادہ حقدار نہیں ؟کیونکہ ! میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا چچا ہوں۔ آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے جب لوگوں سے پوچھا ؟ تو لوگوں نے کہا کہ ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔ آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے وہ بچا ہوا مال حضرت سیدنا عباس رضی اللہ تعالی عنہ کے حوالے کر دیا۔

مال کی محبت   سے اللہ تعالی کی پناہ طلب کرنا ٹھیک ہے

حضرت اسلم رضی تعالی عنہ فرماتے ہیں ! کہ میں نے حضرت عبداللہ بن ارقم کو دیکھا ۔کہ وہ حضرت سیدنا عمر فاروق کے پاس آئے ۔اور کہا اے امیر المومنین ! ہمارے پاس جلولاکے زیوروں میں سے کچھ زیور آئے ہیں۔ اور ان میں چاندی کا ایک برتن بھی ہے۔ اگر آپ رضی اللہ تعالی عنہ کو کسی دن فرصت ہو تو انہیں آکر دیکھ لیجئے گا ۔۔اور اس کے بارے میں جو چاہے ہمیں حکم دیجیے گا۔۔

 حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا ! کہ جب تم مجھے فارغ دیکھو مجھے اطلاع دے دینا ۔چنانچہ ایک دن حضرت عبداللہ بن ارقم، آئے تو انہوں نے آپ رضی اللہ تعالی عنہ کو فارغ دیکھا ۔تو کہا کہ آج میں آپ رضی اللہ تعالی عنہ کو فارغ دیکھ رہا ہوں ۔آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا! کہ ہاں تم میرے لیے چمڑے کا بستر بچھاؤ ۔میں آ رہا ہوں اس کے بعد آپ رضی اللہ تعالی عنہ بیت المال تشریف لے گئے۔ اور مال کے پاس کھڑے ہو کر فرمایا!

          اللہ تعالی!  نے سورۃ ال عمران میں فرمایا ہے!  اکثر لوگوں کو محبت مرعوب چیزوں کی ہوتی ہے ۔مثلا عورتیں ہوئیں۔ بیٹے ہوئے۔سونے چا ندی کے ڈھیر ہوئے۔ نمبر لگے ہوئے گھوڑے۔ مویشی ہوئے۔ ذرات ہوئی ۔یہ سب چیزیں دنیوی استعمال کی ہیں ۔اور انجام کار کی خوبی اللہ تعالی کے پاس ہے۔

 پھر فرمایا !

          اللہ تعالی سورۃ الحدید میں ارشاد فرماتا ہے!  ” جو  چیز تم سے جاتی رہے۔ اس پر رنج نہ کرو۔ اور جو چیز تم کو عطا کی جائے۔ اس پر اتراؤ نہیں۔ اور اللہ تعالی اترانے والے شیخی باز کو پسند نہیں کرتا”۔

         حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ نے ان آیات کی تلاوت کے بعد فرمایا!

                   “الہی ! تو ہم کو ان لوگوں میں کر دے جو اسے حق میں خرچ کریں۔ اور میں تیری پناہ چاہتا ہوں اس کی شرارت سے”۔

                        راوی کہتے ہیں !کہ اتنے میں حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کے صاحبزادے عبدالرحمن رضی اللہ تعالی عنہ آگئے۔ انہوں نے اپنے والد سے کہا کہ ایک انگوٹھی مجھے حبہ کر دیں ۔

            آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا!  “اپنی ماں کے پاس جا وہ تجھے ستو پلائے “

                   راوی کہتے ہیں ۔کہ خدا کی قسم ! حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنے بیٹے کو کچھ نہ دیا۔

 بیت المال سے شہد لوگوں کی اجازت سے لیا

 حضرت سیدنا عمر فاروق!   ایک دن ممبر پر تشریف لائے۔ اس وقت آپ رضی اللہ تعالی عنہ کی طبیعت ناساز تھی ۔اور حکیم نے آپ رضی اللہ تعالی عنہ کو شہد تجویز کیا تھا ۔اس وقت بیت المال میں شہد کی ایک کپی موجود تھی۔ آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا  ! اگر تم لوگ مجھے اجازت دو۔ تو میں اس سے لے لوں؟  ورنہ وہ میرے لیے حرام ہے ۔لوگوں نے آپ رضی اللہ تعالی عنہ کو اجازت دے دی۔ جس کے بعد آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے بیت المال سے شہد کی وہ کپی حاصل کی۔

بیت المال سے مال لینا گوارا نہ کیا

 حضرت ابراہیم رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے۔ فرماتے ہیں !کہ حضرت سیدنا عمر فاروق تجارت کرتے تھے ۔اور خلیفہ بننے کے بعد بھی اکثر و پیشتر اپنا تجارتی سامان کسی تجارتی قافلے کے ہاتھ بھیجا کرتے تھے ۔ایک مرتبہ آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے ملک شام اپنا تجارتی سامان بھیجنے کے لیے حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ تعالی عنہ سے چار ہزار دینار بطور قرض لینے کے لیے ان کے پاس آدمی بھیجا ۔حضرت عبدالرحمن بن عوف نے اس آدمی سے کہا کہ انہیں کہو کہ بیت المال سے قرضہ لے لیں۔ اور بعد میں بیت المال کو لوٹا دیں ۔حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کو حضرت عبدالرحمن بن عوف کا یہ قول گراں گزرا ۔        

          آپ رضی اللہ تعالی عنہ کی ملاقات جب عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ تعالی عنہ سے ہوئی ۔تو آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے ان سے پوچھا! کہ تم نے یہ بات کہی تھی ؟پس اگر میں اس مال کے لوٹانے سے پہلے مر جاتا۔ تو تم لوگ کہتے کہ امیر المومنین ! نے مال لیا تھا۔ اور میں اس مال کے عوص قیامت کے روز پکڑا جاتا۔ میرا ارادہ تھا کہ میں وہ مال تم سے لیتا ۔کیونکہ اگر میں مر بھی جاتا۔ تو تم وہ مال میرے سے وصول کر لیتے۔

Leave A Reply

Please enter your comment!
Please enter your name here