حق اور سچائی کا ساتھ

            ایک چھوٹا سا قصبہ تھا۔ جہاں پہ ایک چھوٹا سا خاندان رہتا تھا۔ اور حارث اس خاندان کا ایک خوبصورت حصہ تھا۔جو بہت ذہین، بہادر اور سچائی سے محبت کرنے والا تھا۔ حارث کے والد، جناب عبداللہ، ایک نیک اور دیندار آدمی تھے، جو ہمیشہ حق کا ساتھ دیتے اور اپنے بیٹے کو بھی یہی سکھاتے کہ سچائی اور حق کا ساتھ دینا ایک مسلمان کی بنیادی ذمہ داری ہے۔

              ایک دن قصبے میں ایک دلچسپ واقعہ پیش آیا۔ گاؤں میں ایک بزرگ، بابا رحیم، جو ہمیشہ حق اور سچائی کی بات کرتے تھے، کی زمین پر ایک تنازعہ کھڑا ہوگیا۔ یہ زمین گاؤں کے رئیس، خان صاحب، نے زبردستی اپنے قبضے میں لے لی تھی۔ خان صاحب گاؤں کے لوگوں پر اپنا دباؤ ڈال کر ان کی زمینیں ہتھیانے کے لیے مشہور تھے، لیکن اس بار انہوں نے بابا رحیم کی زمین پر قبضہ کر لیا۔

                حارث نے جب یہ واقعہ سنا تو اسے بہت دکھ ہوا۔ اس نے سوچا کہ اسے اس معاملے میں حق کا ساتھ دینا چاہیے، چاہے کتنی ہی مشکل کیوں نہ ہو۔ حارث اپنے والد کے پاس گیا اور ان سے کہا، “ابا جان، خان صاحب نے بابا رحیم کی زمین پر قبضہ کر لیا ہے، اور یہ بالکل غلط ہے۔ ہمیں اس ظلم کے خلاف کچھ کرنا چاہیے۔”

         عبداللہ صاحب نے کہا، “بیٹا، تم بالکل صحیح کہہ رہے ہو۔ اسلام ہمیں حق اور سچائی کا ساتھ دینے کی تعلیم دیتا ہے، لیکن ہمیں حکمت اور سمجھداری کے ساتھ کام کرنا ہوگا۔”

            حارث نے اپنے والد کی بات سنی اور قصبے  کے لوگوں کو حق کا ساتھ دینے کی ترغیب دینے کا فیصلہ کیا۔ اس نے اپنے دوستوں اور دوسرے قصبے والوں کے ساتھ مل کر ایک اجلاس بلایا۔ اس اجلاس میں حارث نے سب کو بتایا کہ کس طرح خان صاحب نے ظلم کیا ہے اور انہیں حق اور سچائی کا ساتھ دینا چاہیے۔

             حارث نے کہا، “ہمیں بابا رحیم کی مدد کرنی چاہیے اور خان صاحب کو بتانا چاہیے کہ ہم اس ظلم کو برداشت نہیں کریں گے۔ ہم سب مل کر اگر حق کا ساتھ دیں گے تو خان صاحب کی طاقت کمزور ہو جائے گی اور بابا رحیم کو انصاف ملے گا۔”

            قصبے کے لوگ حارث کی باتوں سے متاثر ہوئے اور فیصلہ کیا کہ وہ بابا رحیم کے حق میں کھڑے ہوں گے۔ اگلے دن، قصبے کے تمام لوگ خان صاحب کے دروازے پر جمع ہو گئے اور انہوں نے خان صاحب سے کہا کہ وہ زمین واپس کریں جو انہوں نے ناجائز طور پر قبضے میں لی ہے۔

             خان صاحب نے پہلے تو لوگوں کی بات کو نظرانداز کرنے کی کوشش کی، لیکن جب انہوں نے دیکھا کہ پورا قصبہ بابا رحیم کے حق میں کھڑا ہے تو ان پر دباؤ بڑھ گیا۔ انہوں نے محسوس کیا کہ اب وہ زیادہ دیر تک اس زمین پر قبضہ نہیں کر سکتے۔

                حارث نے خان صاحب سے کہا، “خان صاحب، اسلام ہمیں ظلم سے روکتا ہے اور حق کا ساتھ دینے کی تلقین کرتا ہے۔ آپ نے جو کیا وہ بالکل غلط ہے، اور آپ کو بابا رحیم کی زمین فوراً واپس کرنی ہوگی۔”

            خان صاحب نے حارث کی بات سنی اور ان کی بہادری اور سچائی کی تعریف کی۔ انہوں نے کہا، “بیٹا، تمہاری عمر تو چھوٹی ہے، لیکن تمہارے دل میں حق کا ساتھ دینے کا جذبہ بہت بڑا ہے۔ تم نے مجھے میری غلطی کا احساس دلایا ہے۔”

              خان صاحب نے بابا رحیم کی زمین فوراً واپس کر دی اور ان سے معافی مانگی۔ قصبے کے لوگوں نے حارث اور اس کے والد کی تعریف کی اور کہا کہ انہوں نے حق کا ساتھ دینے کی ایک شاندار مثال قائم کی ہے۔

              حارث کے والد نے کہا، “بیٹا، آج تم نے ثابت کر دیا کہ حق اور سچائی کا ساتھ دینے سے ہم نہ صرف انصاف کو فروغ دیتے ہیں بلکہ لوگوں کے دلوں میں عزت بھی پاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ حق کا ساتھ دینے والوں کو پسند کرتا ہے اور انہیں کبھی تنہا نہیں چھوڑتا۔”

          حارث نے مسکرا کر کہا، “ابا جان، میں نے آپ ہی سے یہ سیکھا ہے کہ حق کا ساتھ دینا ایک مسلمان کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ ہمیں ہمیشہ سچائی اور انصاف کی راہ پر چلنا چاہیے، چاہے راہ کتنی ہی مشکل کیوں نہ ہو۔”

                 اس واقعے کے بعد حارث قصبے کے بچوں اور بڑوں کے لیے ایک مثال بن گیا۔ لوگ اسے عزت کی نظر سے دیکھتے اور اس کی باتوں کو سنجیدگی سے لیتے۔ حارث نے اپنے قصبے کے لوگوں کو یہ سکھایا کہ جب ہم سب مل کر حق کا ساتھ دیتے ہیں تو کوئی بھی ظلم اور ناانصافی زیادہ دیر تک قائم نہیں رہ سکتی۔

                   حق اور سچائی کا ساتھ دینا ایک مسلمان کا فرض ہے۔ جب ہم حق کا ساتھ دیتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ہماری مدد کرتا ہے اور ہمیں کامیاب کرتا ہے۔ ہمیں ہمیشہ سچائی، انصاف اور حق کا ساتھ دینا چاہیے، چاہے حالات کتنے ہی مشکل کیوں نہ ہوں۔ اسلام ہمیں سکھاتا ہے کہ ظلم کے خلاف کھڑے ہوں اور حق کے لیے آواز اٹھائیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ حق کا ساتھ دینے والوں کو پسند کرتا ہے اور انہیں کبھی ناکام نہیں کرتا۔

Leave A Reply

Please enter your comment!
Please enter your name here