عزت نفس ایک  قیمتی چیز ہے

                حمزہ ایک ذہین اور نیک دل بچہ تھا۔ اس کے والد، احمد صاحب، ایک عزت دار اور محنتی آدمی تھے۔ انہوں نے ہمیشہ اپنے بیٹے کو سکھایا کہ عزت نفس ایک بہت بڑی دولت ہے اور اس کا خیال رکھنا ہماری زندگی کا اہم حصہ ہونا چاہیے۔

           حمزہ کو اپنے والد کی یہ باتیں بہت پسند تھیں، لیکن کبھی کبھی وہ یہ سمجھنے میں مشکل محسوس کرتا تھا کہ عزت نفس کا کیا مطلب ہے اور اسے زندگی میں کیسے اپنایا جائے۔

                ایک دن حمزہ کے اسکول میں ایک نیا لڑکا آیا جس کا نام فرید تھا۔ فرید ایک امیر گھرانے سے تعلق رکھتا تھا اور اس کے پاس مہنگی چیزیں ہوتی تھیں جو باقی بچوں کے پاس نہیں تھیں۔ فرید کو اپنے مال و دولت پر فخر تھا اور وہ اکثر دوسرے بچوں کا مذاق اڑاتا تھا، خاص طور پر ان کا جو اس کے جیسے مالدار نہیں تھے۔

                    ایک دن فرید نے حمزہ کو اپنے نئے جوتوں کے بارے میں بتایا جو کہ بہت مہنگے تھے۔ فرید نے طنزیہ انداز میں کہا، “حمزہ، تمہارے جوتے تو بہت پرانے ہیں۔ کیا تمہارے والد تمہارے لیے نئے جوتے نہیں خرید سکتے؟”

                  حمزہ کو فرید کی بات سن کر بہت برا لگا، لیکن اس نے خود پر قابو رکھا اور نرمی سے جواب دیا، “فرید، میرے والد نے مجھے سکھایا ہے کہ چیزوں کی قیمت سے زیادہ ان کی ضرورت اہم ہوتی ہے۔ میرے جوتے ابھی تک ٹھیک ہیں اور مجھے نئے جوتوں کی ضرورت نہیں ہے۔”

          فرید نے ہنس کر کہا، “لیکن لوگ تمہیں کیا کہیں گے؟ وہ تمہارے پرانے جوتوں کا مذاق اڑائیں گے۔!”

          حمزہ نے مسکرا کر کہا، “میری عزت نفس میرے جوتوں سے نہیں بلکہ میرے کردار اور اعمال سے جڑی ہے۔ اگر میں اپنے والدین کی عزت کرتا ہوں، سچ بولتا ہوں، اور دوسروں کی مدد کرتا ہوں، تو یہی میری اصل عزت ہے۔”

                 فرید نے حمزہ کی بات سنی اور خاموش ہو گیا۔ اسے پہلی بار احساس ہوا کہ شاید اس نے ہمیشہ چیزوں کی ظاہری چمک دمک پر زیادہ توجہ دی ہے اور ان کی اصل قدر کو نظر انداز کیا ہے۔

               اگلے دن حمزہ اپنے والد کے ساتھ مارکیٹ گیا۔ وہاں اس نے دیکھا کہ ایک غریب آدمی، جس کا نام رحمت تھا، لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلا رہا تھا۔ اس کا چہرہ افسردہ تھا اور اس کی آنکھوں میں اداسی جھلک رہی تھی۔ حمزہ نے اپنے والد سے پوچھا، “ابا، یہ آدمی کیوں بھیک مانگ رہا ہے؟”

                        احمد صاحب نے افسوس سے کہا، “بیٹا، یہ آدمی اپنی عزت نفس کو بھول چکا ہے۔ اگر یہ محنت کرتا اور کسی بھی چھوٹے کام سے روزی کماتا تو اس کی عزت نفس محفوظ رہتی، لیکن اس نے آسان راستہ چن لیا ہے اور اب لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانا اس کی عادت بن چکی ہے۔

حمزہ نے سوچا، “ابا، کیا ہم اس کی مدد نہیں کر سکتے؟”

              احمد صاحب نے نرمی سے کہا، “بیٹا، مدد کرنی چاہیے، لیکن ایسی مدد جو کسی کی عزت نفس کو مجروح نہ کرے۔ ہم اسے کوئی کام دے سکتے ہیں تاکہ وہ محنت سے کمائے اور اس کی عزت نفس بحال ہو جائے۔”

               حمزہ نے سر ہلایا اور پھر اس نے رحمت کے پاس جا کر کہا، “بھائی، کیا آپ ہمارے باغ میں کام کریں گے؟ ہم آپ کو اس کا معاوضہ دیں گے، اور آپ اپنی محنت سے کمائی کریں گے۔”

               رحمت نے پہلے تو سوچا، پھر حمزہ کے الفاظ نے اس کے دل کو چھو لیا۔ اس نے اپنے آنسو پونچھے اور کہا، “بیٹا، تم نے میری آنکھیں کھول دی ہیں۔ میں تمہارے باغ میں کام کروں گا اور اپنی عزت نفس واپس حاصل کروں گا۔”

              اگلے دن سے رحمت نے حمزہ کے باغ میں کام شروع کر دیا۔ وہ بہت محنت کرتا تھا اور جلد ہی اس کی محنت کا پھل ملنے لگا۔ اس کا چہرہ خوشی سے چمک اٹھا کیونکہ وہ جان گیا تھا کہ محنت سے کمائی ہوئی روزی میں کتنی برکت اور عزت ہوتی ہے۔

              حمزہ بھی بہت خوش تھا کہ اس نے کسی کی مدد کی اور اسے اپنی عزت نفس دوبارہ حاصل کرنے میں مدد دی۔ اس نے اپنے والد سے کہا، “ابا، آپ ٹھیک کہتے تھے۔ عزت نفس واقعی بہت اہم ہے۔ ہمیں اپنی عزت نفس کا خیال رکھنا چاہیے اور دوسروں کی بھی عزت نفس کا احترام کرنا چاہیے۔”

               احمد صاحب نے فخر سے کہا، “بیٹا، تم نے سیکھ لیا ہے کہ عزت نفس ایک ایسی دولت ہے جو پیسوں سے نہیں خریدی جا سکتی۔ یہ ہمارے اعمال، کردار، اور اللہ کی رضا کے ذریعے حاصل ہوتی ہے۔”

                  اس دن کے بعد حمزہ نے ہمیشہ اپنی عزت نفس کا خیال رکھا اور دوسروں کو بھی یہ سکھانے کی کوشش کی کہ عزت نفس کا تحفظ کیسے کیا جائے۔ وہ جان گیا تھا کہ عزت نفس کی حفاظت کرنا ایک مسلمان کی بنیادی ذمہ داری ہے اور اس کے بغیر زندگی کی کوئی قیمت نہیں ہوتی۔

       عزت نفس ایک ایسی قیمتی چیز ہے جو ہماری زندگی میں ایک مضبوط ستون کی حیثیت رکھتی ہے۔ ہمیں اپنی عزت نفس کی حفاظت کرنی چاہیے اور دوسروں کو بھی ان کی عزت نفس کا احترام کرنے کا حق دینا چاہیے۔ اسلام ہمیں سکھاتا ہے کہ عزت نفس کی حفاظت کرنا اور اس کا خیال رکھنا ہماری ذمہ داری ہے، اور یہی چیز ہمیں ایک سچا اور کامیاب مسلمان بناتی ہے۔

Leave A Reply

Please enter your comment!
Please enter your name here