Home Blog

میں جہنم کا ایندھن نہیں بننا چاہتا

0

میں جہنم کا ایندھن نہیں بننا چاہتا

سلطان نور الدین زنگی  علیہ رحمت اللہ بڑے متقی اور پرہیزگار تھے۔۔ ایک مرتبہ ان کی اہلیہ محترمہ نے ان سے کہا ۔۔آپ کو اللہ تعالی نے بادشاہ بنایا

ہے ۔۔اور حال یہ ہے کہ آپ کے اہل و عیال تنگدستی اور غربت کی زندگی بسر کرتے ہیں۔۔۔ فرمایا ! میں نہیں چاہتا کہ ناجائز ذرائع سے خود عیش و عشرت کی زندگی بسر کروں۔۔ یا اہل و عیال کو عیش کرواؤں۔۔

         ان کی اہلیہ نے عرض کی کم از کم اتنا انتظام تو کر دیں ۔۔

          کہ بچوں کی روٹی کپڑے کا گزارا ہوتا رہے۔۔

آپ نے فرمایا ! حمص میں میری تین دکانیں کرائے پر دی ہوئی ہیں ۔۔وہ میں تمہاری ملکیت میں دیتا ہوں ۔۔ان کی سالانہ آمدنی 20 دینار ہے۔۔ تم اس سے گزارا کرو ۔۔

               کچھ عرصے کے بعد ان کی اہلیہ نے پھر خرچ کی تنگدستی کی شکایت کی۔۔۔ سلطان نے فرمایا !

       “جو کچھ میرے پاس تھا وہ میں نے تم کو دے دیا “۔

             باقی جو کچھ تم میرے پاس دیکھتی ہو اس میں میرا کچھ حصہ نہیں ۔۔یہ سب عوام کا ہے میں صرف “منتظم “محافظ” اور” امین “ہوں۔۔

           میں اس میں سے تمہیں کچھ نہیں دے سکتا۔۔ تمہاری خاطر میں جہنم کا ایندھن نہیں بننا چاہتا ۔۔۔(تاریخ فرشتہ) 

تہجد گزار بادشاہ اور معجون

0

تہجد گزار بادشاہ اور معجون

 سلطان غیا ث الدین بن سلطان محمود خلیجی بڑا عابد اور متقی تھا ۔۔۔اس نے  

شاہی حرم میں قران مجید کی حافظہ کنیزوں کو یہ حکم دے رکھا تھا۔۔۔۔ کہ ہر کنیز روزانہ قران مجید ختم کر کے بادشاہ کی پوشاک پر دم کرے۔۔۔ اس کے بعد بادشاہ پوشاک زیب تن کرتا ۔۔۔سلطان شب بیداری اور نماز تہجد کا کبھی ناغہ نہ ہونے دیتا ۔۔اس نے اہل حرم کو تاکیدی حکم دے رکھا تھا۔۔ کہ اسے تہجد کے لیے ہر قیمت جگا دیا جائے ۔۔۔۔اگر وہ بیدار نہ ہو تو اس کے منہ پر پانی کے چھینٹے مارے جائیں ۔۔اسے زور سے جھنجوڑا جائے۔۔ اگر اس پر بھی وہ نہ اٹھے ۔۔۔تو اس کا بازو پکڑ کر اٹھا دیا کریں ۔۔۔ایک بادشاہی طبیب نے سلطان کے لیے معجون تیار کی ۔۔۔طبیب نے اس کی تیاری پر ایک لاکھ روپیہ خرچ کیا تھا ۔۔۔سلطان نے طبیب کو حکم دیا کہ اس میں شامل اجزاء کی تفصیل بتائی جائے۔۔۔ طبیب نے شامل اجزاء کے نام لینے شروع کیے ۔۔جب سلطان نے طبیب سے ایک نشہ اور چیز کا نام سنا ۔۔تو کہا یہ معجون میں استعمال نہیں کر

 سکتا ۔۔۔معجون کو آگ میں ڈال کر ضائع کر دیا جائے۔۔ ایک مقرب نے عرض کی!  جہاں پناہ۔۔اس معجون پر بے حد خرچہ ہوا ہے۔۔ اس لیے یہ بہتر ہوگا کہ حضور یہ معجون کسی اور شخص کو عنایت فرما دیں ۔۔

           سلطان نے جواب دیا !  “جو چیز میں اپنے لیے ناجائز سمجھتا ہوں کسی دوسرے کے لیے کیوں کر جائز سمجھ سکتا ہوں”۔( تاریخ فرشتہ) 

آنسو کے پانی سے پھول کی پیدائش

0

 

آنسو کے پانی سے پھول کی پیدائش

حضرت آدم علیہ السلام سے اللہ تعالی کا بالواسطہ کلام

                  جب حضرت آدم علیہ السلام سے لغزش ہوئی ۔۔تو آپ حیا کی وجہ سے بھاگنے لگے۔۔

                  تو اس وقت اللہ تعالی نے فرمایا!

                    ترجمہ!

            ” اللہ تعالی نے ان دونوں( آدم اور حوا) کو پکارا ۔۔۔اور یہ فرمایا کہ کیا میں نے تم کو اس درخت کا پھل کھانے سے روکا ہوا نہیں تھا؟   اور کیا تم کو یہ اطلاع دے کر خبردار نہیں کر دیا تھا ؟کہ شیطان تمہارا کھلا دشمن ہے۔۔ اس سے بچنا ہوگا۔۔

         حدیث میں اس کی تفصیل یہ ہے۔۔ ابی بن کعب مرفوعا   روایت کرتے ہیں ۔۔۔کہ اللہ تعالی نے حضرت آدم علیہ السلام کو ایک لمبا آدمی   بنایا تھا ۔۔۔(قد کا طول 60 ہاتھ اور عرض سات ہاتھ تھا) ۔۔۔۔سر پر بہت بال تھے۔۔۔ جیسے کھجور کا درخت۔۔ جب انہوں نے درخت کو چکھا ۔۔جس سے اللہ نے منع فرمایا تھا۔۔ تو بدن پر سے کپڑے گر گئے۔۔

 ستر نظر آنے لگا ۔۔جنت میں دوڑتے پھرتے تھے۔۔ پھر ایک درخت میں بال الجھ گئے ۔۔۔یہ اس سے چھڑانے لگے۔۔ تب اللہ نے پکارا ۔۔

 اے آدم !کیا تو مجھ سے بھاگتا ہے ؟

         کہا نہیں ۔۔اے رب !  میں شرمندہ ہوں۔۔

                                                 ( روایت کیا اس کو ابن ابی حاتم نے)

 آنسو کے پانی سے پھول کی پیدائش

                  حضرت آدم علیہ السلام اپنی لغزش پر اس قدر روئے۔۔۔ کہ آپ کے آنسوؤں سے چھوٹے چھوٹے چشمے پیدا ہو گئے ۔۔۔اور اسی پانی سے حق تعالی نے خوشبودار پھول پیدا فرمائے ۔۔۔اللہ تعالی نے آپ کی ندامت اور گریہ و زاری سے آپ کی عبدیت کو پختہ فرما کر اس درجے پر پہنچا دیا۔۔ جس درجہ عبدیت پر تاج خلافت عطا ہونا علم الہی میں تجویز ہوا تھا۔۔۔

ایک لغزش پر تین سال ندامت سے رونا

          حضرت سیدنا آدم علیہ السلام اپنی لغزش کو یاد کرتے ہوئے۔۔۔ ایک طویل عرصے تک روتے رہے ۔۔۔یہاں تک کہ ندامت کے باعث آسمان کی طرف نگاہ بھی نہ کی۔۔ فرشتے آپ کی زیارت کے طالب ہوئے۔۔ تو حضرت جبرائیل علیہ السلام پیام الہی لیے حاضر ہوئے۔۔۔

     اور کہا اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے! 

 ذرا آسمان کی طرف نگاہ تو اٹھائیے۔۔ نیز آج تک اوپر نظر نہ کرنے کا سبب کیا ہے ؟آپ نے فرمایا !  میں اس لغزش کے باعث سر اوپر اٹھانے میں شرمندگی محسوس کرتا ہوں۔۔۔۔

           ایماندارو !  ذرا غور کرو ۔۔۔قیامت کے روز گناہوں کے باعث جو حال ہوگا ۔۔۔اس کے بارے میں اللہ تعالی !

               قران کریم میں یوں فرماتے ہیں۔۔

 ترجمہ ! 

            قیامت کے دن بندے اپنے رب کے حضور سر جھکائے

 ہوں گے۔۔۔۔

           وہب نے کہا !  آدم علیہ السلام جنت سے نکلنے کے 300 سال تک روئے اور لغزش ہو جانے کے بعد کبھی آسمان کی طرف اپنا سر نہ اٹھایا۔۔۔۔

حضرت عمر فاروق کا الله سے ڈر

0

 

حضرت عمر فاروق کا الله سے ڈر

 

حضرت سیدنا عباس رضی اللہ تعالی عنہ کی توقیر

 حضرت حسن رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے!  کہ حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ بیت المال میں لوگوں کو مال تقسیم کر رہے تھے ۔۔کہ کچھ مال بچ گیا ۔حضرت سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے آپ رضی اللہ تعالی عنہ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا  !اگر موسی علیہ السلام کے چچا زندہ ہوتے تو کیا تم لوگ ان کی عزت نہ کرتے؟

             حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ اور دیگر حاضرین نے بیک زبان ہو کر کہا ! کہ ہاں ہم ان کی عزت کرتے۔ حضرت سیدنا عباس رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا !  تو کیا میں تمہارے نزدیک اس بچے ہوئے مال کا زیادہ حقدار نہیں ؟کیونکہ ! میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا چچا ہوں۔ آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے جب لوگوں سے پوچھا ؟ تو لوگوں نے کہا کہ ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔ آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے وہ بچا ہوا مال حضرت سیدنا عباس رضی اللہ تعالی عنہ کے حوالے کر دیا۔

مال کی محبت   سے اللہ تعالی کی پناہ طلب کرنا ٹھیک ہے

حضرت اسلم رضی تعالی عنہ فرماتے ہیں ! کہ میں نے حضرت عبداللہ بن ارقم کو دیکھا ۔کہ وہ حضرت سیدنا عمر فاروق کے پاس آئے ۔اور کہا اے امیر المومنین ! ہمارے پاس جلولاکے زیوروں میں سے کچھ زیور آئے ہیں۔ اور ان میں چاندی کا ایک برتن بھی ہے۔ اگر آپ رضی اللہ تعالی عنہ کو کسی دن فرصت ہو تو انہیں آکر دیکھ لیجئے گا ۔۔اور اس کے بارے میں جو چاہے ہمیں حکم دیجیے گا۔۔

 حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا ! کہ جب تم مجھے فارغ دیکھو مجھے اطلاع دے دینا ۔چنانچہ ایک دن حضرت عبداللہ بن ارقم، آئے تو انہوں نے آپ رضی اللہ تعالی عنہ کو فارغ دیکھا ۔تو کہا کہ آج میں آپ رضی اللہ تعالی عنہ کو فارغ دیکھ رہا ہوں ۔آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا! کہ ہاں تم میرے لیے چمڑے کا بستر بچھاؤ ۔میں آ رہا ہوں اس کے بعد آپ رضی اللہ تعالی عنہ بیت المال تشریف لے گئے۔ اور مال کے پاس کھڑے ہو کر فرمایا!

          اللہ تعالی!  نے سورۃ ال عمران میں فرمایا ہے!  اکثر لوگوں کو محبت مرعوب چیزوں کی ہوتی ہے ۔مثلا عورتیں ہوئیں۔ بیٹے ہوئے۔سونے چا ندی کے ڈھیر ہوئے۔ نمبر لگے ہوئے گھوڑے۔ مویشی ہوئے۔ ذرات ہوئی ۔یہ سب چیزیں دنیوی استعمال کی ہیں ۔اور انجام کار کی خوبی اللہ تعالی کے پاس ہے۔

 پھر فرمایا !

          اللہ تعالی سورۃ الحدید میں ارشاد فرماتا ہے!  ” جو  چیز تم سے جاتی رہے۔ اس پر رنج نہ کرو۔ اور جو چیز تم کو عطا کی جائے۔ اس پر اتراؤ نہیں۔ اور اللہ تعالی اترانے والے شیخی باز کو پسند نہیں کرتا”۔

         حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ نے ان آیات کی تلاوت کے بعد فرمایا!

                   “الہی ! تو ہم کو ان لوگوں میں کر دے جو اسے حق میں خرچ کریں۔ اور میں تیری پناہ چاہتا ہوں اس کی شرارت سے”۔

                        راوی کہتے ہیں !کہ اتنے میں حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کے صاحبزادے عبدالرحمن رضی اللہ تعالی عنہ آگئے۔ انہوں نے اپنے والد سے کہا کہ ایک انگوٹھی مجھے حبہ کر دیں ۔

            آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا!  “اپنی ماں کے پاس جا وہ تجھے ستو پلائے “

                   راوی کہتے ہیں ۔کہ خدا کی قسم ! حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنے بیٹے کو کچھ نہ دیا۔

 بیت المال سے شہد لوگوں کی اجازت سے لیا

 حضرت سیدنا عمر فاروق!   ایک دن ممبر پر تشریف لائے۔ اس وقت آپ رضی اللہ تعالی عنہ کی طبیعت ناساز تھی ۔اور حکیم نے آپ رضی اللہ تعالی عنہ کو شہد تجویز کیا تھا ۔اس وقت بیت المال میں شہد کی ایک کپی موجود تھی۔ آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا  ! اگر تم لوگ مجھے اجازت دو۔ تو میں اس سے لے لوں؟  ورنہ وہ میرے لیے حرام ہے ۔لوگوں نے آپ رضی اللہ تعالی عنہ کو اجازت دے دی۔ جس کے بعد آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے بیت المال سے شہد کی وہ کپی حاصل کی۔

بیت المال سے مال لینا گوارا نہ کیا

 حضرت ابراہیم رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے۔ فرماتے ہیں !کہ حضرت سیدنا عمر فاروق تجارت کرتے تھے ۔اور خلیفہ بننے کے بعد بھی اکثر و پیشتر اپنا تجارتی سامان کسی تجارتی قافلے کے ہاتھ بھیجا کرتے تھے ۔ایک مرتبہ آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے ملک شام اپنا تجارتی سامان بھیجنے کے لیے حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ تعالی عنہ سے چار ہزار دینار بطور قرض لینے کے لیے ان کے پاس آدمی بھیجا ۔حضرت عبدالرحمن بن عوف نے اس آدمی سے کہا کہ انہیں کہو کہ بیت المال سے قرضہ لے لیں۔ اور بعد میں بیت المال کو لوٹا دیں ۔حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کو حضرت عبدالرحمن بن عوف کا یہ قول گراں گزرا ۔        

          آپ رضی اللہ تعالی عنہ کی ملاقات جب عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ تعالی عنہ سے ہوئی ۔تو آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے ان سے پوچھا! کہ تم نے یہ بات کہی تھی ؟پس اگر میں اس مال کے لوٹانے سے پہلے مر جاتا۔ تو تم لوگ کہتے کہ امیر المومنین ! نے مال لیا تھا۔ اور میں اس مال کے عوص قیامت کے روز پکڑا جاتا۔ میرا ارادہ تھا کہ میں وہ مال تم سے لیتا ۔کیونکہ اگر میں مر بھی جاتا۔ تو تم وہ مال میرے سے وصول کر لیتے۔

چیونٹیوں کی بستی

0

 

چیونٹیوں کی بستی

حضرت سلیمان علیہ السلام

 حضرت سلیمان علیہ السلام اللہ کے نبی حضرت داؤد علیہ السلام کے بیٹے تھے۔ آپ بنی اسرائیل سے تعلق رکھتے تھے۔ اور اپنے والد حضرت داؤد علیہ السلام کے بعد عنان حکومت سنبھال کر بنی اسرائیل کے بادشاہ بنے۔ آپ اللہ کے سچے پیغمبر اور انصاف پرور بادشاہ تھے ۔اللہ تعالی نے انہیں ہفت اقلیم کی بادشاہت عطا فرمائی ۔اور وہ صرف انسانوں کے ہی نہیں ۔بلکہ تمام مخلوقات کے بادشاہ تھے ۔چرند پرند اور جنات وغیرہ سب ان کے تابع فرمان تھے ۔اللہ تعالی نے حضرت سلیمان علیہ السلام کو جتنا وسیع و عریض ملک عطا کیا ۔ایسا کسی جن و بشر کو نہیں دیا۔

             اس کے باوجود حضرت سلیمان علیہ السلام میں ذرا بھر بھی تکبر نہ تھا ۔وہ اپنے اخراجات کے لیے شاہی خزانے سے ایک پیسہ تک نہ لیتے تھے۔ اور اپنے ہاتھ سے زنبیل سی کر اور اسے فروخت کر کے گزر اوقات کیا کرتے تھے ۔۔کچھ کھانے کے لیے وہ اپنے ہاتھوں سے جوپیس کر آٹا بناتے ۔اور اس کی روٹی پکا کر کھاتے تھے۔ آپ اکثر روزہ رکھتے تھے۔ اور ہر شام بیت المقدس میں جا کر غریبوں اور روزے داروں کے ساتھ روزہ افطار کرتے تھے۔۔

 تخت سلیمانی

                  بادشاہ بننے کے بعد آپ نے ایک نہایت عالی شان اور پرتکلف مکان بنوایا ۔۔۔جس کا رقبہ 36 کوس تھا۔ اس مکان کو سونے چاندی کی اینٹوں سے بنایا گیا ۔جس کی دیواروں اور چھتوں پر یاقوت اور زمرد جڑے ہوئے تھے۔ پھر اس مکان کے اندر آپ نے اپنے لیے ایک شاندار تخت بنوایا ۔جس کی لمبائی تین کوس تھی۔ سارا تخت ہاتھی دانت سے بنایا گیا تھا۔ جو لال، اور فیروزہ،، زمرد جیسے پتھروں سے مرصع تھا ۔اور اس کے چاروں طرف سونے کی اینٹیں لگی ہوئی تھیں۔۔ تخت کے چاروں کونوں پر ایسے درخت تھے ۔۔جن کی ڈالیاں سونے کی تھیں ۔اور ہر ڈال پر ایک طوطی اور طاؤس بنا کر ان کے پیٹ کے اندر مشک بھر دیا گیا تھا۔۔ ان درختوں کے خوشے انگوروں کی طرح تھے ۔اس تخت کے نیچے اور دائیں بائیں ایک ہزار سونے کی کرسیاں لگائی گئی تھیں۔۔ جن پر لوگ بیٹھتے تھے ۔۔ان کے پیچھے جنوں اور انسانوں میں سے غلام کھڑے کیے گئے تھے۔۔ یہ تخت جنات نے بنایا تھا ۔۔جو آپ کی رعایا تھے۔

            جب حضرت سلیمان علیہ السلام تا ج شاہی سر پر رکھ کر اس عظیم الشان تخت پر قدم رکھتے ۔۔تو ان کی ہیبت سے تخت اس وقت حرکت کرنے لگتا ۔۔اور طوطی اور طاؤس بھی اللہ کے حکم سے اپنے پر پھیلا دیتے تھے۔۔ جن سے مشک وغیرہ کی خوشبو نکلتی تھی ۔۔ اللہ تعالی کے فضل سے حضرت سلیمان علیہ السلام ہر جانور کی بولی اچھی طرح سمجھتے تھے ۔

                     جب آپ تاج شاہی سر پر رکھتے۔ تو تمام پرندے تخت کے اوپر معلق ہو کر آپ کے سر پر سایہ کرتے تھے۔۔ جس مکان میں تخت سلیمانی تھا ۔۔اس میں کئی محرابیں تھیں جہاں عابد و زاہد لوگ بیٹھ کر عبادت الہی کیا کرتے تھے ۔۔حضرت سلیمان علیہ السلام ہمیشہ اللہ تعالی کی ان نعمتوں کا شکر ادا کرتے ۔اور ہر وقت اللہ تعالی سے مناجات کرتے رہتے تھے۔ آپ پوری عجز و انکسار کے ساتھ اللہ تعالی کے حضور یہ دعا کرتے تھے۔ یا الہی !میں درویشوں کے ساتھ بھی شامل ہوں اور بادشاہوں کے ساتھ بھی ۔صرف یہی نہیں بلکہ میں پیغمبروں میں سے ایک پیغمبر ہوں ۔۔اے میرے مالک!  میں تیری نعمتوں کا کہاں تک شکر ادا کروں؟

                   اللہ تعالی نے ہوا کو حضرت سلیمان علیہ السلام کے تابع کر دیا تھا۔۔ جب آپ اپنے عظیم الشان تخت پر بیٹھ کر تخت کو چلنے کا حکم دیتے۔۔تو تخت اتنی تیز رفتاری سے چلتا کہ آپ ہزاروں کو س کا فاصلہ چند منٹ میں طے کر آتے ۔۔

آپ صبح کو ایک شہر اور شام کو دوسرے شہر میں ہوتے تھے ۔۔آپ کے باورچی خانہ کے لیے جنات نے بڑی بڑی پتھر کی دیگیں بنائی ہوئی تھیں۔۔ جنہیں بادل پانی سے بھر دیتا ۔۔ان دیگوں میں روزانہ کئی ہزار اونٹ اور کئی ہزار گو سفند(بھیڑ –دبنے-بکرا- بکر  ی)      پکتے۔۔ اور خلق اللہ صبح    سے شام تک آپ کے لنگر خانہ سے کھاتی پیتی ۔

چیونٹیوں کی بستی

                   ایک دن حضرت سلیمان علیہ السلام اپنے عظیم الشان شاہی تخت پر بیٹھے ہوئے ہوا میں سفر کر رہے تھے۔۔ تخت کے دوسرے حصوں میں آپ کے ایک ہزار ملازم اور سلطنت کے عہدے دار بھی اپنی کرسیوں پر بیٹھے تھے ۔۔جن میں وزیراعظم برخیا بھی شامل تھا ۔۔تمام جن تخت کے گرد ادب سے کھڑے تھے۔۔ اور فضا میں اڑنے والے پرندے تخت پر اپنے پروں سے سایہ کیے آ رہے تھے ۔۔۔سفر کے دوران حضرت سلیمان علیہ السلام کے کانوں میں فرشتوں کی آواز پڑی ۔۔فرشتے اللہ کی تسبیح کرتے ہوئے کہہ رہے تھے۔۔ اے رب!  تو نے حضرت سلیمان علیہ السلام کو جیسا ملک اور حشم(خدمت گار- نوکر چاکر)   دیا ہے۔۔ ایسا کسی اور جن و بشر میں سے کسی کو نہیں دیا ۔۔اس پر اللہ تعالی نے فرمایا ! اے فرشتو ! میں نے سلیمان علیہ السلام کو ہفت ا قلیم کی بادشاہی عنایت کی ہے ۔اور اس کو نبوت سے سرفراز کیا ہے ۔۔لیکن سلیمان میں غرور و تکبر بالکل نہیں ہے۔۔ اگر ایسا ہوتا” تو میں ان کو ہوا پر لے جا کر زمین پر ڈال دیتا ”۔اور پھر ان کو نست و نابود کر دیتا ۔۔

               حضرت سلیمان علیہ السلام نے یہ کلام سنا ۔۔تو فورا اللہ کے حضور سجدے میں گر گئے۔۔ اور اس کی نعمتوں کا شکر ادا کرنے لگے۔۔ ہوا نے ان کے تخت کو زمین پر اتارا جہاں چونٹیوں کی بستی تھی۔۔ تخت سلیمانی کو دیکھ کر چونٹیاں خوفزدہ ہو گئیں ۔۔اس واقعے کا تذکرہ قران پاک میں اس طرح ہے۔۔۔

 ترجمہ!

 “یہاں تک کہ ۔۔جب پہنچے سلیمان چوٹیوں کے میدان پر تو ایک چیونٹی نے کہا!  اے چیونٹیوں!   گھس جاؤ اپنے گھروں میں تاکہ تم کو نہ پیس ڈالے سلیمان اور اس کا لشکر۔۔ اور پھر ان کو خبر بھی نہ ہو۔ یہ چونٹی اپنے قوم کی سردار یعنی” شاہ مور “تھی۔۔ اس کی بات سن کر حضرت سلیمان علیہ السلام مسکرائے۔۔ اور انہوں نے شاہ مور کو اپنی ہتھیلی پر رکھ کر پوچھا ؟ اے شامور ! تم نے اپنے لشکر سے یہ کیوں کہا؟ کہ سلیمان آتا ہے اور تم اپنے اپنے گھروں میں گھس جاؤ؟  تم نے اس سے پہلے میرا کیا ظلم دیکھا ہے ؟

شاہ مور نے کہا  !  اے نبی ہم نے آپ کا یا آپ کے لشکر کا پہلا پہلے کوئی ظلم نہیں دیکھا ۔

    مگر ہم نے خوف سے حفظ ما تقدم کے طور پر ایسا کہا ہے ۔۔۔کہ کہیں آپ کے گھوڑوں کی ٹاپوں تلے چونٹیاں نہ کچلی جائیں ۔۔

          حضرت سلیمان علیہ السلام نے فرمایا!   کیا تم اپنی چونٹیوں پر ایسی شفقتیں کیا کرتے ہو ؟   جی ہاں!       شاہ مور نے کہا۔۔” چونکہ اللہ تعالی نے مجھے ان کا بادشاہ بنایا اس لیے میرا فرض ہے کہ میں ان کی سلامتی کا خیال رکھوں “۔۔

            تمہارے ساتھ کتنی چیونٹیاں رہتی ہیں ؟     حضرت سلیمان نے پوچھا؟؟

 شاہ مور نے بتایا “کہ 40 ہزار”۔۔

         اس پر حضرت سلیمان علیہ السلام نے پوچھا !  تمہاری بادشاہی بہتر ہے

 یا میری بادشاہت؟

  چیونٹیوں کی سردار نے کہا !  “میری بادشاہی بہتر ہے۔۔ کیونکہ تمہارے تخت کو ہوا اٹھاتی ہے ۔ تم اس پر بیٹھتے ہو یہ کتنا بڑا تکلف ہے”۔۔

                   حضرت سلیمان علیہ السلام نے مسکرا کر پوچھا ۔۔۔تمہیں یہ عقل کس نے سکھائی ہے ؟

             اے سلیمان علیہ السلام ! جس اللہ نے تمہیں عقل عطا فرمائی ۔۔اسی نے ہمیں عقل سے نوازا ہے۔۔ شاہ مور نے جواب دیا !

          اگر آپ اجازت دیں ۔۔تو میں آپ سے چند مسائل پوچھوں؟

           پوچھو!  کیا پوچھنا ہے تمہیں؟ حضرت سلیمان نے کہا۔۔۔۔  

                  شاہ مور نے پوچھا   !   اے سلیمان علیہ السلام !  تم نے اللہ تعالی سے سوال کیا تھا؟ ترجمہ!

          ”  کہا اے پروردگار ! مغفرت کر میری ۔۔اور بخش مجھ کو ایسا ملک کے نہ لائق ہو کسی کو میرے پیچھے ۔۔۔ تو ہے سب کو بخشنے والا”۔۔۔

                “اے سلیمان!   تمہارے اس سوال سے حسد کی بو آتی ہے۔۔ جبکہ حسد کرنا پیغمبروں کی شان کے خلاف ہے ۔۔تمہیں یہ بھی اچھی طرح معلوم ہے ۔۔کہ خداوند قدوس سارے جہاں کا مالک ہے۔۔۔ وہ جسے چاہے بادشاہی دے اور جسے چاہے نہ دے” ۔۔

                  تو بڑی دانہ اور عقلمند ہے ۔۔حضرت سلیمان نے کہا !

                شاہ مور نے کہا!  “اے اللہ کے نبی !  تم بھی اپنی رعایا کی نگرانی کرو اور اپنے عدل و انصاف سے ریت کو خوش رکھو۔۔ ظالم سے مظلوموں کا حق دلواؤ۔۔

                          میں تو بیچاری ضعیف ہو مسکین ہوں۔۔ پھر بھی اپنی رعایا  کی ہر روز خبر لیتی ہوں۔۔ اور ان کا بار اٹھاتی ہوں۔۔ تاکہ کوئی بھی ان پر ظلم نہ کر سکے۔۔

              شاہ مور کی باتیں سن کر حضرت سلیمان علیہ السلام نے سجدے میں گر کر کہا ۔۔

اے پروردگار !

                        “تیری قدرت بے انتہا ہے۔۔ اور تو ہی بے شک عظمت و   بزرگی کے لائق ہے”۔۔

                 قران حکیم کی سورت   سبا       میں ارشاد باری تعالی ہے!

 ترجمہ! ” اور جنوں میں سے تھےوہ       جو اس سلیمان کے سامنے خدمت انجام دیتے تھے۔۔۔ اور اس کے پروردگار کے حکم سے۔۔ اور جو کوئی ان میں سے ہمارے حکم کی خلاف ورزی کرے۔۔ ہم اسے دوزخ کا عذاب چکھائیں گے ۔۔ اور اس کے لیے بناتے تھے جو کچھ وہ چاہتا تھا۔۔۔ قلعوں کی تعمیر ۔۔ہتھیار اور تصاویر۔۔ اور بڑے بڑے لگن ۔۔جو حوضوں کے مانند تھے ۔۔اور بڑی بڑی دیگیں جو اپنی بڑائی کی وجہ سے ایک جگہ جمی رہیں ۔۔اے آل داود!   “شکر گزاری کے کام کرو اور میرے بندوں میں سے بہت کم شکر گزار ہیں”۔۔۔

Best Attitude Quotes In English

0

Best  Attitude Quotes In English

I am just a mirrior for you. You are good. I am best. You are bad. I am worst

All the problems are stuck between ‘Mind’ and ‘Matter’ If you don’t ‘Mind’ It doesn’t ‘Matter”

Don’t use your energy To Worry. Use your Energy to belive, create, TRUST, GROW, GLOW, MANIFEST, And HEAL.

I don’t care what you think about me. I was not born to impress you

Control your “ANGER” because it is Just one letter away from ‘D’ANGER

Treat me like a Queen and I’ll treat you like a king. But if you treat me like a game. I’ll show you how it’s played.

Your attitude is like a price tag, it shows how valuable you are.

I don’t respect those who don’t respect me you call it EGO I call it Self Respect .

Never Announce your moves before you make them.

· Self-Confidence is the best outfit, rock it and own it.

A Positive Attitude , nothing determines the direction your life will take, except a Positive Attitude . When your attitude is positive , the direction of your life will be positive too.

Don’t confuse my personality with my attitude. My personality is who I am. My attitude depends on who you are.

Stay positive , the only difference between a good day and a bad day is your attitud

Beautiful Quotes in English

0

 Beautiful Quotes in English 

Insha Allah One day you will say “ya Allah . this is what I prayed for . Alhamdulillah.

Ya Allah AlHAMDULILLAH for all the hidden blessing that I was unable to THANKYOU.

Quran is the best medicine for the heart, mind and Soul.

FAJR Every morning is beautiful when we talk to Allah first.

Allah always answers your request maybe not with a “yes” , but always with “WHAT IS BEST”.

The body has so many needs but soul has only one. To be with Allah.

Yes he is the King of my heart , My Beloved PROPHET MUHAMMAD.

Sabar just as Allah turns night into day, he will soon turn our burdens into blessing.

“DUA” The Best Gift…… You Can Give Someone is “DUA”.

Life is test, Islam is best , Namaz is must, Aakhrat is for rest. World is onlydust, If quran is in chest, nothing need next. Obey Allah first, Success will be next

“until we realize that it is only Allah who is the SOURCE OF PEACE, we will never be able to attain true PEACE OF MIND.

ایران کا بادشاہ

0

https://rb.gy/graqx7

ایران کا بادشاہ 

 

دارا (ایران کا بادشاہ جو سکندر سے جنگ کرتا ہوا مارا گیا )ایک دفعہ شکار کو نکلا۔۔۔ تو لشکر سے جدا ہو گیا ۔۔تھک ہار کر ایک درخت کے سائے تلے بیٹھا ۔۔ساتھیوں کا انتظار کرنے لگا ۔۔اتنے میں دارا کو      ایک آدمی دور سے آتا ہوا دکھائی دیا ۔۔۔وہ سمجھا کہ کوئی میرا دشمن آرہا ہے۔۔۔ ترکش سے تیر نکالا کمان پر چڑھایا ۔۔تو اس آدمی نے ہاتھ جوڑ کر عرض کیا۔ کہ میں تو آپ کے گھوڑوں کا رکھوالا ہوں۔ اور کئی مرتبہ آپ کی بارگاہ میں حاضری دے چکا ہوں۔ حیرت کی بات ہے کہ آپ کے ہزار گھوڑوں میں سے ایک ایک کو پہچانتا ہوں ۔اگر آپ حکم کریں تو جو گھوڑا فرمائیں۔ حاضر کر دو۔ ان کے رنگ چال شکل ہر چیز سے واقف ہوں ۔اور میں سمجھتا ہوں اس میں میرا کوئی کمال نہیں۔ بلکہ میرا فرض ہے لیکن گستاخی معاف آپ بھی تو میری طرح عوام کے رکھوالے ہیں ۔آپ کو اس سے زیادہ عوام کا خیال رکھنا چاہیے۔ جتنا کہ مجھے اپ کے گھوڑوں کا  ہے۔

کیونکہ میں تو ایک نوکر ہوں۔ اور یاد رکھیے !جس بادشاہ کو اپنے پرائے کی پہچان نہیں ۔وہ حکومت کرنےکے قابل نہیں ہے۔

شاہی خزانہ عوام کی امانت ہے

0

 

شاہی خزانہ عوام کی امانت ہے

ایک انصاف پسند     بادشاہ نے معمولی لباس پہن رکھا تھا ۔۔۔کسی نے کہا کہ آپ عمدہ لباس کیوں نہیں سلوا لیتے ۔۔تو اس نے جواب دیا کہ جسم  ڈھاپنے کے لیے اتنا ہی کافی ہے۔ اس سے زیادہ تو زینت ہی ہوگا ۔۔خزانہ اس لیے نہیں کہ میں فضول خرچی کروں ۔۔اگر میں عورتوں کی طرح زینت کرنے لگوں تو دشمن کا مقابلہ نہیں کر سکوں گا۔۔ آرزوئیں میرے دل میں بھی بہت ہیں ۔لیکن خزانہ سپاہیوں کے لیے ہوتا ہے۔ نہ کہ زیب و زینت کے لیے ‘جو بادشاہ سپاہی کو خوش نہ رکھ سکے ۔وہ اپنی سرحدیں محفوظ نہیں رکھ سکتا۔ بادشاہ عشر اور خراج کیوں لیتا ہے؟ اگر دیہاتی کا گدھا دشمن سے محفوظ نہیں۔ اگر دشمن گدھا لے جائے ۔اور بادشاہ خراج لے جاے۔ تو ایسی حکومت کا کیا فائدہ ؟ گرے ہوؤں کو مارنا بہادری نہیں ۔اور چونٹیوں کے آگے سے دانہ اٹھا لینا کمنگی ہے۔ رعایہ درخت کی طرح ہوتے ہیں ان کی پرورش کرے گا ۔تو پھل کھائے گا ۔نادان اور ظالم ہے جو پھل والے درخت کو کاٹے ۔اور پھر پھل کھانے کی امید رکھے۔ اس چیز سے بچو کے کوئی کمزور گر جائے ایسا نہ ہو کہ وہ رب کی بارگاہ میں تمہارے خلاف گڑگڑائے۔ جب صلح سے ملک حاصل کیا جا سکتا ہے تو خون کیوں بہایا جائے ؟کیونکہ ساری دنیا کی حکومت خون کے ایک قطرے کے برابر بھی نہیں ہو سکتی۔۔

عزت نفس ایک قیمتی چیز ہے

0

عزت نفس ایک  قیمتی چیز ہے

                حمزہ ایک ذہین اور نیک دل بچہ تھا۔ اس کے والد، احمد صاحب، ایک عزت دار اور محنتی آدمی تھے۔ انہوں نے ہمیشہ اپنے بیٹے کو سکھایا کہ عزت نفس ایک بہت بڑی دولت ہے اور اس کا خیال رکھنا ہماری زندگی کا اہم حصہ ہونا چاہیے۔

           حمزہ کو اپنے والد کی یہ باتیں بہت پسند تھیں، لیکن کبھی کبھی وہ یہ سمجھنے میں مشکل محسوس کرتا تھا کہ عزت نفس کا کیا مطلب ہے اور اسے زندگی میں کیسے اپنایا جائے۔

                ایک دن حمزہ کے اسکول میں ایک نیا لڑکا آیا جس کا نام فرید تھا۔ فرید ایک امیر گھرانے سے تعلق رکھتا تھا اور اس کے پاس مہنگی چیزیں ہوتی تھیں جو باقی بچوں کے پاس نہیں تھیں۔ فرید کو اپنے مال و دولت پر فخر تھا اور وہ اکثر دوسرے بچوں کا مذاق اڑاتا تھا، خاص طور پر ان کا جو اس کے جیسے مالدار نہیں تھے۔

                    ایک دن فرید نے حمزہ کو اپنے نئے جوتوں کے بارے میں بتایا جو کہ بہت مہنگے تھے۔ فرید نے طنزیہ انداز میں کہا، “حمزہ، تمہارے جوتے تو بہت پرانے ہیں۔ کیا تمہارے والد تمہارے لیے نئے جوتے نہیں خرید سکتے؟”

                  حمزہ کو فرید کی بات سن کر بہت برا لگا، لیکن اس نے خود پر قابو رکھا اور نرمی سے جواب دیا، “فرید، میرے والد نے مجھے سکھایا ہے کہ چیزوں کی قیمت سے زیادہ ان کی ضرورت اہم ہوتی ہے۔ میرے جوتے ابھی تک ٹھیک ہیں اور مجھے نئے جوتوں کی ضرورت نہیں ہے۔”

          فرید نے ہنس کر کہا، “لیکن لوگ تمہیں کیا کہیں گے؟ وہ تمہارے پرانے جوتوں کا مذاق اڑائیں گے۔!”

          حمزہ نے مسکرا کر کہا، “میری عزت نفس میرے جوتوں سے نہیں بلکہ میرے کردار اور اعمال سے جڑی ہے۔ اگر میں اپنے والدین کی عزت کرتا ہوں، سچ بولتا ہوں، اور دوسروں کی مدد کرتا ہوں، تو یہی میری اصل عزت ہے۔”

                 فرید نے حمزہ کی بات سنی اور خاموش ہو گیا۔ اسے پہلی بار احساس ہوا کہ شاید اس نے ہمیشہ چیزوں کی ظاہری چمک دمک پر زیادہ توجہ دی ہے اور ان کی اصل قدر کو نظر انداز کیا ہے۔

               اگلے دن حمزہ اپنے والد کے ساتھ مارکیٹ گیا۔ وہاں اس نے دیکھا کہ ایک غریب آدمی، جس کا نام رحمت تھا، لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلا رہا تھا۔ اس کا چہرہ افسردہ تھا اور اس کی آنکھوں میں اداسی جھلک رہی تھی۔ حمزہ نے اپنے والد سے پوچھا، “ابا، یہ آدمی کیوں بھیک مانگ رہا ہے؟”

                        احمد صاحب نے افسوس سے کہا، “بیٹا، یہ آدمی اپنی عزت نفس کو بھول چکا ہے۔ اگر یہ محنت کرتا اور کسی بھی چھوٹے کام سے روزی کماتا تو اس کی عزت نفس محفوظ رہتی، لیکن اس نے آسان راستہ چن لیا ہے اور اب لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانا اس کی عادت بن چکی ہے۔

حمزہ نے سوچا، “ابا، کیا ہم اس کی مدد نہیں کر سکتے؟”

              احمد صاحب نے نرمی سے کہا، “بیٹا، مدد کرنی چاہیے، لیکن ایسی مدد جو کسی کی عزت نفس کو مجروح نہ کرے۔ ہم اسے کوئی کام دے سکتے ہیں تاکہ وہ محنت سے کمائے اور اس کی عزت نفس بحال ہو جائے۔”

               حمزہ نے سر ہلایا اور پھر اس نے رحمت کے پاس جا کر کہا، “بھائی، کیا آپ ہمارے باغ میں کام کریں گے؟ ہم آپ کو اس کا معاوضہ دیں گے، اور آپ اپنی محنت سے کمائی کریں گے۔”

               رحمت نے پہلے تو سوچا، پھر حمزہ کے الفاظ نے اس کے دل کو چھو لیا۔ اس نے اپنے آنسو پونچھے اور کہا، “بیٹا، تم نے میری آنکھیں کھول دی ہیں۔ میں تمہارے باغ میں کام کروں گا اور اپنی عزت نفس واپس حاصل کروں گا۔”

              اگلے دن سے رحمت نے حمزہ کے باغ میں کام شروع کر دیا۔ وہ بہت محنت کرتا تھا اور جلد ہی اس کی محنت کا پھل ملنے لگا۔ اس کا چہرہ خوشی سے چمک اٹھا کیونکہ وہ جان گیا تھا کہ محنت سے کمائی ہوئی روزی میں کتنی برکت اور عزت ہوتی ہے۔

              حمزہ بھی بہت خوش تھا کہ اس نے کسی کی مدد کی اور اسے اپنی عزت نفس دوبارہ حاصل کرنے میں مدد دی۔ اس نے اپنے والد سے کہا، “ابا، آپ ٹھیک کہتے تھے۔ عزت نفس واقعی بہت اہم ہے۔ ہمیں اپنی عزت نفس کا خیال رکھنا چاہیے اور دوسروں کی بھی عزت نفس کا احترام کرنا چاہیے۔”

               احمد صاحب نے فخر سے کہا، “بیٹا، تم نے سیکھ لیا ہے کہ عزت نفس ایک ایسی دولت ہے جو پیسوں سے نہیں خریدی جا سکتی۔ یہ ہمارے اعمال، کردار، اور اللہ کی رضا کے ذریعے حاصل ہوتی ہے۔”

                  اس دن کے بعد حمزہ نے ہمیشہ اپنی عزت نفس کا خیال رکھا اور دوسروں کو بھی یہ سکھانے کی کوشش کی کہ عزت نفس کا تحفظ کیسے کیا جائے۔ وہ جان گیا تھا کہ عزت نفس کی حفاظت کرنا ایک مسلمان کی بنیادی ذمہ داری ہے اور اس کے بغیر زندگی کی کوئی قیمت نہیں ہوتی۔

       عزت نفس ایک ایسی قیمتی چیز ہے جو ہماری زندگی میں ایک مضبوط ستون کی حیثیت رکھتی ہے۔ ہمیں اپنی عزت نفس کی حفاظت کرنی چاہیے اور دوسروں کو بھی ان کی عزت نفس کا احترام کرنے کا حق دینا چاہیے۔ اسلام ہمیں سکھاتا ہے کہ عزت نفس کی حفاظت کرنا اور اس کا خیال رکھنا ہماری ذمہ داری ہے، اور یہی چیز ہمیں ایک سچا اور کامیاب مسلمان بناتی ہے۔