Home Blog Page 2

وقت کی اہمیت کو سمجھو

0

 

وقت کی اہمیت کو سمجھو

                عاصم ایک ذہین اور شوقین لڑکا تھا، لیکن اس میں ایک کمی تھی: وہ وقت کی قدر نہیں کرتا تھا۔ عاصم ہمیشہ اپنے کاموں کو ٹال دیتا تھا، چاہے وہ اسکول کا ہوم ورک ہو یا گھر کے چھوٹے موٹے کام۔

            عاصم کے والد، جمیل صاحب، ایک نیک اور سمجھدار آدمی تھے۔ وہ ہمیشہ عاصم کو سمجھاتے کہ وقت کی قدر کرنا بہت ضروری ہے۔ جمیل صاحب اکثر کہتے، “بیٹا، وقت اللہ کی طرف سے دی گئی ایک بہت بڑی نعمت ہے۔ جو اس کی قدر کرتا ہے، وہ دنیا اور آخرت میں کامیاب ہوتا ہے۔”

              عاصم کو یہ باتیں تو اچھی لگتی تھیں، لیکن وہ انہیں ہمیشہ بھول جاتا تھا۔ وہ صبح دیر سے اٹھتا، اسکول کے لیے جلدی جلدی تیار ہوتا اور اکثر اسکول پہنچنے میں دیر ہو جاتی۔ اس کے استاد، حسان صاحب، بھی اسے بار بار وقت کی پابندی کا درس دیتے تھے، لیکن عاصم پھر بھی لاپرواہی دکھاتا تھا۔

                 ایک دن عاصم کے اسکول میں امتحانات شروع ہونے والے تھے۔ استاد نے عاصم کو بتایا کہ امتحان کی تیاری کے لیے صرف ایک ہفتہ باقی ہے۔ عاصم نے سوچا کہ ابھی کافی وقت ہے اور اس نے تیاری کو ٹال دیا۔ وہ اپنے دوستوں کے ساتھ کھیلنے میں مصروف رہا اور پڑھائی کے لیے وقت نہ نکالا۔

            جب امتحان کا دن قریب آیا، تو عاصم کو فکر ہوئی کہ اس نے کچھ بھی تیاری نہیں کی۔ وہ رات دیر تک جاگ کر پڑھنے کی کوشش کرنے لگا، لیکن وقت کی کمی کی وجہ سے وہ سب کچھ یاد نہ کر سکا۔ امتحان کے دن، عاصم پریشان اور نروس تھا۔

                 امتحان کے بعد جب نتائج آئے، تو عاصم کے نمبر بہت کم تھے۔ اسے بہت شرمندگی محسوس ہوئی اور وہ اپنے والد کے پاس گیا۔ جمیل صاحب نے اسے دیکھا اور سمجھ گئے کہ عاصم کو سبق مل چکا ہے۔

            عاصم نے افسردگی سے کہا، “ابا، میں نے آپ کی بات نہیں مانی اور وقت ضائع کیا۔ اب میں اس کا نتیجہ بھگت رہا ہوں۔”

                جمیل صاحب نے نرمی سے کہا، “بیٹا، یہ ٹھیک ہے کہ تم نے غلطی کی، لیکن اس سے سبق سیکھنا ضروری ہے۔ وقت کی قدر نہ کرنے کا انجام ہمیشہ پچھتاوا ہوتا ہے۔ لیکن اللہ ہمیں سکھانے کے لیے ایسی صورت حال بھیجتا ہے تاکہ ہم اپنی غلطیوں سے سبق سیکھیں اور آگے بڑھیں۔”

       عاصم نے سر جھکا کر کہا، “ابا، میں وعدہ کرتا ہوں کہ آئندہ میں وقت کی قدر کروں گا اور کبھی اپنا کام ٹالوں گا نہیں۔”

              جمیل صاحب نے مسکرا کر کہا، “یہ بہت اچھی بات ہے، بیٹا۔ یاد رکھو، جو لوگ وقت کی قدر کرتے ہیں، وہی کامیاب ہوتے ہیں۔”

             اگلے دن سے عاصم نے اپنی زندگی میں تبدیلی لانی شروع کی۔ وہ صبح جلدی اٹھتا، اپنے کام وقت پر کرتا، اور ہر کام کو پہلے سے پلان کرتا۔ اس نے اسکول میں وقت کی پابندی کو اپنا معمول بنا لیا اور پڑھائی میں بھی محنت کرنے لگا۔

            عاصم کے استاد، حسان صاحب، نے بھی اس کی اس تبدیلی کو محسوس کیا اور اسے شاباش دی۔ انہوں نے کہا، “عاصم، تم نے وقت کی قدر کرنا سیکھ لیا ہے، اور یہی تمہاری کامیابی کا پہلا ” قدم ہے۔۔ عاصم نے ان کی باتوں کو غور سے سنا۔ حسان صاحب نے کہا، “وقت اللہ کی ایک امانت ہے اور ہمیں اس کا حساب دینا ہوگا۔ جو لوگ وقت کو ضائع کرتے ہیں، وہ دراصل اپنی زندگی کو ضائع کرتے ہیں۔ ہمیں وقت کی قدر کرنی چاہیے اور ہر لمحہ کو اللہ کی رضا کے مطابق گزارنا چاہیے۔”

               عاصم نے استاد صاحب کی باتوں کو دل سے قبول کیا اور اپنے استاد کی نصیحت کو ہمیشہ کے لیے یاد رکھنے کا عزم کیا۔

               وقت گزرتا گیا اور عاصم کی زندگی میں تبدیلی آتی گئی۔ اب وہ نہ صرف اسکول میں بہتر کارکردگی دکھا رہا تھا بلکہ اس کے دوست بھی اس سے متاثر ہونے لگے۔ وہ بھی عاصم کی طرح وقت کی قدر کرنے لگے۔ عاصم نے اپنے دوستوں کو بھی وقت کی اہمیت کے بارے میں سمجھانا شروع کیا اور سب نے مل کر عزم کیا کہ وہ وقت ضائع نہیں کریں گے۔

             ایک دن عاصم کے والد نے اسے گلے لگا کر کہا، “بیٹا، میں تم پر فخر کرتا ہوں کہ تم نے اپنی غلطیوں سے سیکھا اور وقت کی قدر کرنا شروع کی۔ یاد رکھو، زندگی میں وقت سب سے قیمتی چیز ہے۔ جو لوگ وقت کی قدر کرتے ہیں، اللہ انہیں دنیا اور آخرت دونوں میں کامیاب کرتا ہے۔”

           عاصم نے اپنے والد سے کہا، “ابا، میں نے سیکھ لیا ہے کہ وقت کی قدر نہ کرنے سے ہم اپنی زندگی کی سب سے قیمتی چیز کھو دیتے ہیں۔ میں وعدہ کرتا ہوں کہ آئندہ میں وقت کی قدر کروں گا اور اپنی زندگی کو اللہ کی رضا کے مطابق گزاروں گا۔کیونکہ میں سمجھ  گیا  ہوں کہ”

وقت اللہ کی طرف سے دی گئی ایک بہت بڑی نعمت ہے اور اس کی قدر کرنا ہماری زندگی میں کامیابی کی کنجی ہے۔ ہمیں وقت کو ضائع نہیں کرنا چاہیے اور ہر لمحہ کو فائدہ مند بنانا چاہیے۔ اسلام ہمیں سکھاتا ہے کہ وقت کا صحیح استعمال ہماری دنیا اور آخرت دونوں میں کامیابی کا ذریعہ بنتا ہے۔

 

 

 

Bano Qudsia Quotes in urdu

0

Bano Qudsia Quotes in urdu

Bano Qudsia was a celebrated Pakistani novelist, playwright, and intellectual, widely regarded as one of the most influential literary figures in Urdu literature. Born on November 28, 1928, in Firozpur, British India, she migrated to Pakistan after the partition in 1947. She pursued her education at Kinnaird College and later at Government College Lahore, where she met her future husband, the renowned writer Ashfaq Ahmed.

Bano Qudsia’s literary work is known for its profound exploration of social, spiritual, and psychological themes, often delving into the complexities of human relationships and societal norms. Her most famous novel, “Raja Gidh,” is a seminal work in Urdu literature, reflecting on moral decay and the consequences of unethical choices, and remains a cornerstone in her literary legacy.

In addition to novels, Bano Qudsia wrote numerous plays, short stories, and essays, with a writing style marked by deep philosophical insight and an ability to portray the intricacies of the human soul. She received several prestigious awards, including the Sitara-i-Imtiaz, for her contributions to literature. Bano Qudsia passed away on February 4, 2017, leaving behind a rich legacy that continues to inspire readers and writers alike.

محبت کبھی بھی ایک جیسی نہیں رہتی، یہ وقت کے ساتھ بدلتی رہتی ہے، جیسے جیسے انسان کا شعور بڑھتا ہے، محبت کی حقیقت بھی اس پر عیاں ہوتی ہے۔

انسان کی اصل دولت اس کے اعمال ہیں، جو اس کے ساتھ قبر تک جاتے ہیں، باقی سب کچھ یہیں رہ جاتا ہے۔

صبر کرنے والے لوگ کبھی ہار نہیں مانتے، کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ہر آزمائش کے بعد آسانی آتی ہے۔

محبت کی انتہا جب انسان کی خودی کو پگھلا دیتی ہے، تب وہ محبت الٰہی کی طرف سفر شروع کرتا ہے۔

زندگی کبھی مکمل نہیں ہوتی، اس میں ہمیشہ کچھ نہ کچھ ادھورا رہتا ہے، اور یہی ادھوراپن ہمیں جینے کی وجہ دیتا ہے۔

سچائی کو کبھی الفاظ کی ضرورت نہیں ہوتی، وہ ہمیشہ خاموشی میں بھی اپنے آپ کو منوا لیتی ہے۔

انسان کے اندر جب تک خواہشات زندہ رہتی ہیں، تب تک سکون اس سے دور رہتا ہے۔

خوابوں کا پورا ہونا ضروری نہیں، ان کا دیکھنا اور ان کی تعبیروں کی جستجو ہی زندگی کو معنی دیتی ہے۔

درد کو اپنے اندر دفن کر دو، کیونکہ دنیا میں کوئی ایسا شخص نہیں جو تمہارے درد کو تم سے زیادہ سمجھے۔

محبت میں شرطیں نہیں ہوتیں، شرطوں کے ساتھ کی جانے والی محبت ہمیشہ شکست کھاتی ہے۔

جب عقل آتی ہے تو شادی ہو جاتی ہے۔ محبت کی عمر آتی ہے تو بچے پالنے پڑتے ہیں ۔آرام کا وقت آتا ہے تو بیماریاں گھیر لیتی ہیں ۔اور جب زندگی کی سمجھ آنے لگتی ہے تو دنیا سے جانے کا وقت آجاتا ہے۔

کسی کی زندگی میں رہنے کے لیے بھیک نہیں مانگنی چاہیے۔ اپنا دامن صاف ہو پھر بھی نظر انداز ہوں ۔تو خاموشی سے ایک طرف ہو جائیں اسی کو عزت نفس کہا جاتا ہے۔

ماں سے کبھی حساب مت کرنا ورنہ تم پر رزق کے سارے دروازے بند کر دیے جائیں گے

ہر وہ شخص جو آپ کی زندگی میں قدم رکھتا ہے۔ اس کے آنے کا کوئی نہ کوئی سبب ہوتا ہے۔ کچھ آپ کو محبت کرنا سکھا دیتے ہیں۔ کچھ لوگ محبت نبھانا سکھا دیتے ہیں ۔کچھ صبر کرنا سکھا دیتے ہیں۔ تو کچھ خواب دیکھنا اور کچھ لوگ انہی خواب کو پورا کرنے کا حوصلہ دے جاتے ہیں۔ بانو قدسیہ

اگر کوئی عورت خود تمہاری طرف رجوع کرتی ہے۔ تو پھر تم پر فرض ہے کہ اس کی خاطر مر جاؤ ۔کیونکہ کوئی عورت تب تک کسی مرد میں دلچسپی نہیں لیتی ۔جب تک وہ مرد اس کی نظروں میں دنیا کے تمام مردوں سے “عظیم “نہ ہو۔

Hazrat Ali Quotes in Urdu

0

Hazrat Ali Quotes in Urdu

Hazrat Ali Ibn Abi Talib (RA) was an important figure in early Islamic history, respected for his piety, wisdom, and leadership. Born in Mecca in 600 CE, he was the cousin and son-in-law of the Prophet Muhammad (PBUH), as well as the first male convert to Islam. Known for his courage and deep spiritual insight, Hazrat Ali played a leading role in many important events during the life of the Prophet, including the migration to Medina and the battles of Badr, Uhud, and Khaibar.

As the fourth Caliph of Islam, Hazrat Ali (RA) is revered for his just and egalitarian rule, which emphasizes social justice and the welfare of the Muslim community. His sermons, letters, and sayings compiled in the book Nahj al-Balagha continue to inspire Muslims around the world. Hazrat Ali’s commitment to truth and justice, coupled with his extraordinary knowledge of Islamic jurisprudence and theology, earned him the title “The Lion of Allah”. ” and got the title “Gateway of Knowledge”.

His martyrdom in 661 AD is a tragic event in Islamic history. Hazrat Ali’s legacy lives on as a symbol of bravery, wisdom and steadfast faith.

علم دولت سے بہتر ہے، کیونکہ” علم تمہاری حفاظت کرتا ہے اور دولت تمہیں اس کی حفاظت کرنی پڑتی ہے”۔

،جس پر احسان کرو” اس کے شر سے بھی بچو”۔

انسان اپنی زبان کے نیچے چھپا ہوا ہے جب بولتا ہے تو وہ پہچانا جاتا ہے۔

مخلوق سے امیدیں وابستہ کرنے سے بہتر ہے کہ اپنے خالق سے رجوع کرو۔

تمہاری پریشانی تمہیں اس مقام پر لے جائے گی جہاں اللہ تمہیں دیکھنا چاہتا ہے۔

سب سے بڑا گناہ وہ ہے جو گناہ کرنے والے کی نظر میں چھوٹا ہو۔

غصہ ایک قسم کی دیوانگی ہے جو اس پر قابو نہ پا سکے وہ خود کو بہت نقصان پہنچاتا ہے۔

نیکی وہی ہے جو دل کی گہرائی سے کی جائے اور جس میں ریاکاری نہ ہو۔

انسان کی اصل خوبصورتی اس کے اخلاق اور کردار میں ہوتی ہے، نہ کہ اس کے چہرے میں۔

لوگوں کے عیب تلاش کرنے والا سب سے بڑا عیب خود اپنے اندر رکھتا ہے۔

مولا علی فرماتے ہیں

خاموشی اختیار کر لو مگر کسی سے شکوہ مت کرو جب عزت نہ ملے تو کنارہ کر لو

امام علی نے فرمایا

بدترین ہے وہ شخص جس کے شر سے لوگ ڈرتے ہیں

حضرت علی نے فرمایا

مومن کا ایمان اس وقت تک کامل نہیں ہوتا جب تک وہ مجھے نورانیت کے ساتھ پہچان نہ لے

دو چیزیں آپ اپنے اندر پیدا کر لو چپ رہنا اور معاف کرنا کیونکہ چپ رہنے سے بڑا کوئی جواب نہیں اور معاف کر دینے سے بڑا کوئی انتقام نہیں حضرت امام علی علیہ السلام

اس سوچ کے ساتھ زندگی میں آگے بڑھو کہ اللہ نے یقینا بہترین ہی سوچا ہوگا

 

کسی شخص پر اس وقت تک بھروسہ نہ کرو جب تک اسے اپنے لیے غصے میں نہ دیکھ لو

جب دعا کرتے وقت تمہاری آنکھوں سے آنسو آنے لگیں تو سمجھ جانا تمہاری دعا بارگاہ الہی میں قبول ہو چکی ہیں

حق اور سچائی کا ساتھ

0

 

حق اور سچائی کا ساتھ

            ایک چھوٹا سا قصبہ تھا۔ جہاں پہ ایک چھوٹا سا خاندان رہتا تھا۔ اور حارث اس خاندان کا ایک خوبصورت حصہ تھا۔جو بہت ذہین، بہادر اور سچائی سے محبت کرنے والا تھا۔ حارث کے والد، جناب عبداللہ، ایک نیک اور دیندار آدمی تھے، جو ہمیشہ حق کا ساتھ دیتے اور اپنے بیٹے کو بھی یہی سکھاتے کہ سچائی اور حق کا ساتھ دینا ایک مسلمان کی بنیادی ذمہ داری ہے۔

              ایک دن قصبے میں ایک دلچسپ واقعہ پیش آیا۔ گاؤں میں ایک بزرگ، بابا رحیم، جو ہمیشہ حق اور سچائی کی بات کرتے تھے، کی زمین پر ایک تنازعہ کھڑا ہوگیا۔ یہ زمین گاؤں کے رئیس، خان صاحب، نے زبردستی اپنے قبضے میں لے لی تھی۔ خان صاحب گاؤں کے لوگوں پر اپنا دباؤ ڈال کر ان کی زمینیں ہتھیانے کے لیے مشہور تھے، لیکن اس بار انہوں نے بابا رحیم کی زمین پر قبضہ کر لیا۔

                حارث نے جب یہ واقعہ سنا تو اسے بہت دکھ ہوا۔ اس نے سوچا کہ اسے اس معاملے میں حق کا ساتھ دینا چاہیے، چاہے کتنی ہی مشکل کیوں نہ ہو۔ حارث اپنے والد کے پاس گیا اور ان سے کہا، “ابا جان، خان صاحب نے بابا رحیم کی زمین پر قبضہ کر لیا ہے، اور یہ بالکل غلط ہے۔ ہمیں اس ظلم کے خلاف کچھ کرنا چاہیے۔”

         عبداللہ صاحب نے کہا، “بیٹا، تم بالکل صحیح کہہ رہے ہو۔ اسلام ہمیں حق اور سچائی کا ساتھ دینے کی تعلیم دیتا ہے، لیکن ہمیں حکمت اور سمجھداری کے ساتھ کام کرنا ہوگا۔”

            حارث نے اپنے والد کی بات سنی اور قصبے  کے لوگوں کو حق کا ساتھ دینے کی ترغیب دینے کا فیصلہ کیا۔ اس نے اپنے دوستوں اور دوسرے قصبے والوں کے ساتھ مل کر ایک اجلاس بلایا۔ اس اجلاس میں حارث نے سب کو بتایا کہ کس طرح خان صاحب نے ظلم کیا ہے اور انہیں حق اور سچائی کا ساتھ دینا چاہیے۔

             حارث نے کہا، “ہمیں بابا رحیم کی مدد کرنی چاہیے اور خان صاحب کو بتانا چاہیے کہ ہم اس ظلم کو برداشت نہیں کریں گے۔ ہم سب مل کر اگر حق کا ساتھ دیں گے تو خان صاحب کی طاقت کمزور ہو جائے گی اور بابا رحیم کو انصاف ملے گا۔”

            قصبے کے لوگ حارث کی باتوں سے متاثر ہوئے اور فیصلہ کیا کہ وہ بابا رحیم کے حق میں کھڑے ہوں گے۔ اگلے دن، قصبے کے تمام لوگ خان صاحب کے دروازے پر جمع ہو گئے اور انہوں نے خان صاحب سے کہا کہ وہ زمین واپس کریں جو انہوں نے ناجائز طور پر قبضے میں لی ہے۔

             خان صاحب نے پہلے تو لوگوں کی بات کو نظرانداز کرنے کی کوشش کی، لیکن جب انہوں نے دیکھا کہ پورا قصبہ بابا رحیم کے حق میں کھڑا ہے تو ان پر دباؤ بڑھ گیا۔ انہوں نے محسوس کیا کہ اب وہ زیادہ دیر تک اس زمین پر قبضہ نہیں کر سکتے۔

                حارث نے خان صاحب سے کہا، “خان صاحب، اسلام ہمیں ظلم سے روکتا ہے اور حق کا ساتھ دینے کی تلقین کرتا ہے۔ آپ نے جو کیا وہ بالکل غلط ہے، اور آپ کو بابا رحیم کی زمین فوراً واپس کرنی ہوگی۔”

            خان صاحب نے حارث کی بات سنی اور ان کی بہادری اور سچائی کی تعریف کی۔ انہوں نے کہا، “بیٹا، تمہاری عمر تو چھوٹی ہے، لیکن تمہارے دل میں حق کا ساتھ دینے کا جذبہ بہت بڑا ہے۔ تم نے مجھے میری غلطی کا احساس دلایا ہے۔”

              خان صاحب نے بابا رحیم کی زمین فوراً واپس کر دی اور ان سے معافی مانگی۔ قصبے کے لوگوں نے حارث اور اس کے والد کی تعریف کی اور کہا کہ انہوں نے حق کا ساتھ دینے کی ایک شاندار مثال قائم کی ہے۔

              حارث کے والد نے کہا، “بیٹا، آج تم نے ثابت کر دیا کہ حق اور سچائی کا ساتھ دینے سے ہم نہ صرف انصاف کو فروغ دیتے ہیں بلکہ لوگوں کے دلوں میں عزت بھی پاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ حق کا ساتھ دینے والوں کو پسند کرتا ہے اور انہیں کبھی تنہا نہیں چھوڑتا۔”

          حارث نے مسکرا کر کہا، “ابا جان، میں نے آپ ہی سے یہ سیکھا ہے کہ حق کا ساتھ دینا ایک مسلمان کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ ہمیں ہمیشہ سچائی اور انصاف کی راہ پر چلنا چاہیے، چاہے راہ کتنی ہی مشکل کیوں نہ ہو۔”

                 اس واقعے کے بعد حارث قصبے کے بچوں اور بڑوں کے لیے ایک مثال بن گیا۔ لوگ اسے عزت کی نظر سے دیکھتے اور اس کی باتوں کو سنجیدگی سے لیتے۔ حارث نے اپنے قصبے کے لوگوں کو یہ سکھایا کہ جب ہم سب مل کر حق کا ساتھ دیتے ہیں تو کوئی بھی ظلم اور ناانصافی زیادہ دیر تک قائم نہیں رہ سکتی۔

                   حق اور سچائی کا ساتھ دینا ایک مسلمان کا فرض ہے۔ جب ہم حق کا ساتھ دیتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ہماری مدد کرتا ہے اور ہمیں کامیاب کرتا ہے۔ ہمیں ہمیشہ سچائی، انصاف اور حق کا ساتھ دینا چاہیے، چاہے حالات کتنے ہی مشکل کیوں نہ ہوں۔ اسلام ہمیں سکھاتا ہے کہ ظلم کے خلاف کھڑے ہوں اور حق کے لیے آواز اٹھائیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ حق کا ساتھ دینے والوں کو پسند کرتا ہے اور انہیں کبھی ناکام نہیں کرتا۔

اسلام میں نماز کے آداب

0

 

اسلام میں نماز کے آداب

             ۔۔۔نماز کے لیے طہارت اور پاکیزگی کا پورا پورا خیال رکھیں ۔وضو کریں تو مسواک کا بھی اہتمام کریں ۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قیامت میں میری امت کی علامت یہ ہوگی کہ ان کی پیشانی اور اعضائے وضو نور سے چمک رہے ہوں گے۔ پس جو شخص اپنے اپنے نور کو بڑھانا چاہے بڑھائے۔

 ۔۔۔صاف ستھرے سنجیدہ مہذب اور سلیقے کے کپڑے پہن کر نماز ادا کیجئے ۔

      قران مجید میں ہے!” اے آدم کے بیٹوں ہر نماز کے موقع پر اپنی زینت سے آراستہ ہو جایا کرو۔”

 وقت کی پابندی سے نماز ادا کیجئے مومنوں پر وقت کی پابندی سے نماز فرض کی گئی ہے۔ 

حضرت عبداللہ بن مسعود نے ایک بار نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا ! یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !خدا کے نزدیک کون سا عمل سب سے زیادہ محبوب ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ! نماز کو اس کے وقت پر ادا کرنا ۔اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا ۔خدا نے پانچ نمازیں فرض کی ہیں جس شخص نے ان نمازوں کو ان کے مقررہ وقت پر اچھی طرح وضو کر کے خشوع و خضوع سے ادا کیا۔ تو اللہ پر اس کا یہ حق ہے کہ وہ اس کو بخش دے۔ اور جس نے ان نمازوں میں کوتاہی کی تو اللہ پر اس کی مغفرت و نجات کی کوئی ذمہ داری نہیں ۔چاہے تو عذاب دے اور چاہے تو بخش دے۔

   ۔۔۔نماز ہمیشہ جماعت سے پڑھیے۔ اگر کبھی جماعت نہ ملے تب بھی فرض نماز مسجد میں ہی پڑھیے۔ البتہ سنتیں گھر پڑھنا بھی اچھا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے ! جو شخص 40 دن تکبیر اولی کے ساتھ نماز باجماعت پڑھے۔ وہ دوزخ اور نفاق دونوں سے محفوظ کر دیا جاتا ہے۔( ترمذی)

       ۔۔۔۔اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا ! اگر لوگوں کو نماز باجماعت کا اجر و ثواب معلوم ہو جائے تو وہ ہزار مجبوریوں کے باوجود بھی نماز کے لیے دوڑ دوڑ کر آئیں۔ جماعت کی پہلی صف ایسی ہے جیسے فرشتوں کی صف۔ تنہا نماز پڑھنے سے دو آدمیوں کی جماعت بہتر ہے ۔پھر جتنے آدمی زیادہ ہوں اتنی ہی یہ جماعت خدا کو زیادہ محبوب ہوتی ہے۔( ابو داؤد)

       ۔۔۔نماز سکون کے ساتھ پڑھیے ۔اور رکوع اور سجود اطمینان کے ساتھ ادا کیجئے۔ رکوع سے اٹھنے کے بعد اطمینان کے ساتھ سیدھے کھڑے ہو جائیے۔ پھر سجدے میں جائیے۔ اسی طرح دونوں سجدوں کے درمیان بھی مناسب وقفہ کیجئے۔ اور دونوں سجدوں کے درمیان یہ دعا بھی پڑھ لیا کیجیے ۔

“خدایا تو میری مغفرت فرما مجھ پر رحم کر۔ مجھے سیدھی راہ پر چلا۔ میری شکستہ حالی دور فرما ۔مجھے سلامتی دے۔ اور مجھے روزی عطا کر۔”

 ۔۔۔۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے!  جو شخص نماز کو اچھی طرح ادا کرتا ہے ۔نماز اس کو دعائیں دیتی ہے۔ کہ خدا اسی طرح تیری بھی حفاظت کرے ۔جس طرح تو نے میری حفاظت کی ۔اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا ! بدترین چوری نماز کی چوری ہے۔ لوگوں نے پوچھا۔ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !  نماز میں کوئی چوری کیسے کر سکتا ہے؟ فرمایا!  رکوع اور سجدے ادھورے کر کے ۔

۔۔۔۔اذان کی آواز سنتے ہی نماز کی تیاری شروع کر دیجئے۔۔ اور وضو کر کے پہلے سے مسجد میں پہنچ جائیے۔۔ اور خاموشی کے ساتھ میں صف میں بیٹھ کر جماعت کا انتظار کیجیے۔ اذان سننے کے بعد سستی اور تاخیر کرنا اور کسمساتے ہوئے نماز کے لیے جانا منافقوں کی علامت ہے۔

 ۔۔۔۔اذان بھی ذوق و شوق سے پڑھا کیجئے ۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک شخص نے پوچھا !یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! مجھے کوئی ایسا کام بتا دیجئے جو مجھے جنت میں لے جائے۔۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا !نماز کے لیے اذان دیا کرو ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا! موذن کی آواز جہاں تک پہنچتی ہے۔۔ اور جو اس کی اذان سنتا ہے ۔وہ قیامت میں موذن کے حق میں گواہی دے گا ۔جو شخص جنگل میں اپنی بکریاں چراتا ہو اور اذان کا وقت آنے پر اونچی آواز سے اذان کہے۔ تو جہاں تک اس کی آواز جائے گی ۔قیامت کے دن وہ ساری چیزیں اس کے حق میں گواہی دیں گی۔( بخاری)

 ۔۔۔۔۔۔۔۔اگر آپ امام ہیں۔ تو تمام آداب و شرائط کا اہتمام کرتے ہوئے نماز پڑھائیے ۔اور مقتد یوں کی سہولت کا لحاظ کرتے ہوئے۔ اچھی طرح امامت کیجئے ۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا!   جو امام اپنے مقدیدیوں کو اچھی طرح نماز پڑھاتے ہیں اور یہ سمجھ کر پڑھاتے ہیں کہ ہم اپنے مقتد یوں کی نماز کے ضامن ہیں۔ ان کو اپنے مقتد یوں کی نماز کا اجر بھی ملتا ہے ۔جتنا ثواب مقتد یوں کو ملتا ہے ۔اتنا ہی امام کو بھی ملتا ہے۔ اور مقتد یوں کے اجر و ثواب میں کوئی کمی نہیں کی جاتی ۔(طبرانی)

 ۔۔۔۔نماز اسی طرح خشوع و خضوع سے پڑھیں کہ دل پر خدا کی عظمت و جلال کی ہیبت طاری ہو ۔۔اور خوف وسکون چھایا ہوا ہو ۔نماز میں بلاوجہ ہاتھ پیر ہلانا ۔بدن بدن کھجانا۔ داڑھی میں خلال کرنا ۔ناک میں انگلی دینا ۔کپڑے سنبھالنا ۔سخت بے ادبی کی حرکتیں ہیں۔ ان سے سختی کے ساتھ پرہیز کرنا چاہیے ۔نماز کے ذریعے خدا سے قرب حاصل کیجیے ۔

۔۔۔۔۔نماز اس طرح پڑھیے کہ گویا آپ خدا کو دیکھ رہے ہیں۔۔ یا کم از کم یہ احساس رکھیے کہ خدا آپ کو دیکھ رہا ہے۔۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا!  بندہ اپنے رب سے سب سے زیادہ قریب اس وقت ہوتا ہے ۔جب وہ اس کے حضور سجدہ کرتا ہے ۔پس جب تم سجدہ کرو تو سجدے میں خوب دعا کیا کرو۔

 ۔۔۔۔نماز ذوق و شوق کے ساتھ پڑھیے ۔۔مارے باندھے کی رسمی نماز درحقیقت نماز نہیں ہے۔ ایک وقت کی نماز پڑھنے کے بعد دوسری نماز کا بے چینی اور شوق سے انتظار کیجئے ۔ایک دن مغرب کی نماز کے بعد کچھ لوگ عشاء کی نماز کا انتظار کر رہے تھے ۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس قدر تیز تیز

چل کر آئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سانس چڑھ گئی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا !لوگو خوش ہو جاؤ۔۔ تمہارے رب نے آسمان کا ایک دروازہ کھول کر تمہیں فرشتوں کے سامنے کیا ۔اور فخر کرتے ہوئے فرمایا! دیکھو میرے بندے ایک نماز ادا کر چکے۔ اور دوسری نماز کا انتظار کر رہے ہیں۔

۔۔۔۔۔ غافلوں اورلاپرواہوں کی طرح جلدی نماز پڑھ کر سر سے بوجھ نہ اتاریے۔۔ بلکہ حضور قلب کے ساتھ خدا کو یاد کیجئے۔ اور دل دماغ ۔احساسات۔ جذبات۔ اور افکار و خیالات۔ ہر چیز سے پوری طرح خدا کی طرف رجوع ہو کر پوری یکسوئی اور دھیان کے ساتھ نماز پڑھیے ۔نماز وہی نماز ہے جس میں خدا کی یاد ہو  ۔۔۔ منافقوں کی نماز خدا کی یاد سے خالی ہوتی ہے۔۔

۔۔۔۔۔نماز پابندی سے پڑھیے کبھی ناغہ نہ کیجئے مومنوں کی بنیادی خوبی یہی ہے کہ وہ پابندی کے ساتھ بلا ناغہ نماز پڑھتے ہیں ۔

 فرض نمازوں کی پابندی کے ساتھ ساتھ نفل نمازوں کا بھی اہتمام کیجئے۔۔ اور کثرت سے نوافل پڑھنے کی کوشش کیجئے۔۔۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص فرض نمازوں کے علاوہ دن میں 12 رکعتیں پڑھتا ہے اس کے لیے ایک گھر جنت میں بنا دیا جاتا ہے۔۔

 ۔۔۔سنت اور نوافل کبھی کبھی گھر میں بھی پڑھا کیجیے ۔۔۔نبی کا صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے مسجد میں نماز پڑھنے کے بعد کچھ نماز گھر میں پڑھا کرو۔۔ خدا  اس نماز کے تفیل تمہارے گھر میں خیر عطا فرمائے گا ۔(مسلم)

 اور نبی خود بھی سنت اور نوافل اکثر گھر میں پڑھا کرتے تھے۔۔۔

۔۔۔۔۔۔فجر کی نماز کے لیے جب گھر سے نکلیں تو یہ دعا پڑھیں

 ترجمہ!  “خدایا تو پیدا فرما دے میرے دل میں نور۔ میری بینائی میں نور۔ میری شنوائی میں نور ۔میرے دائیں نور۔ میرے بائیں نور ۔میرے پیچھے نور ۔میرے آگے نور۔ اور میرے لیے نور ہی نور کر دے۔ میرے پٹھوں میں نور کر دے۔ میرے گوشت میں نور۔ میرے خون میں نور۔ میرے بالوں میں نور۔ میری کھال میں نور۔ میری زبان میں نور۔ اور میرے نفس میں نور پیدا فرما دے ۔اور مجھے نور عظیم دے ۔اور مجھے سراپا نور بنا دے ۔اور پیدا فرما میرے اوپر نور۔ میرے نیچے نور ۔خدایا مجھے نور عطا کر۔”

۔۔۔۔۔فجر اور مغرب کی نماز سے فارغ ہو کر گفتگو کرنے سے پہلے ہی سات بار یہ دعا پڑھیں۔ اللہم اجرنی من النار

خدایا مجھے جہنم کی آگ سے پناہ دے”۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے! فجر اور مغرب کی نماز کے بعد کسی سے بات کرنے سے پہلے سات بار یہ دعا پڑھا کرو ۔ اگر اس دن یا اس رات میں مر جاؤ گے۔ تو تم جہنم سے ضرور نجات پاؤ گے۔

۔۔۔۔۔۔۔ ہر نماز کے بعد تین بار استغفراللہ کہیں اور پھر یہ دعا پڑھیں۔

 ترجمہ!” خدایا تو  السلام ہے ‘ سلامتی کا فیضان تیرے ہی جانب ہے۔ تو خیر و برکت والا ہے۔” اے عظمت والے  اور نوازش والے”۔

۔۔۔۔۔جماعت کی نماز میں صفوں کو درست رکھنے کا پورا پورا اہتمام کیجئے صف بالکل سیدھے رکھیے ۔۔اور کھڑے ہونے میں اس طرح کندھے سے کندھا ملائیے کہ بیچ میں خالی جگہ نہ رہے ۔۔اور جب تک آگے کی صفیں نہ بھر جائیں پیچھے۔۔ دوسری صفیں نہ بنائیے۔۔ ایک بار جماعت کی نماز میں ایک شخص اسی طرح کھڑا ہوا تھا کہ اس کا سینہ باہر نکلا ہوا تھا۔۔۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا تو تنبیہ فرمائی ۔۔خدا کے بندو ! اپنی صفوں کو سیدھی اور درست رکھنے کا لازما اہتمام کرو ۔۔۔ورنہ خدا تمہارے رخ ایک دوسرے کے خلاف کر دے گا۔۔ ایک موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص نماز کی کسی صف کو جوڑے گا ۔۔اسے خدا جوڑے گا ۔اور جو کسی صف کو کاٹے گا۔۔ خدا اسے کاٹے گا ۔۔۔ بچوں کی صف لازما مردوں سے پیچھےہو۔ اور بڑوں کے ساتھ کھڑا نہ کیجئے۔۔ البتہ عید وغیرہ میں جہاں الگ کرنےسے بچوں کے گم ہونے کا اندیشہ ہو وہاں بچوں کو پیچھے بھیجنے کی ضرورت نہیں۔۔ اپنے ساتھ رکھیے۔۔ اور عورتوں کی صفیں یا تو سب سے پیچھے ہوں ۔۔یا الگ ہوں۔۔ مسجد میں ان کے لیے الگ جگہ بنی ہوئی ہو۔۔ اسی طرح عید گاہ میں بھی عورتوں کے بھی الگ جگہ کا انتظام کیجیے۔۔

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

Motivatinol

 

 

 

 

 

حضرت اسماء اور ان کی والدہ کا واقعہ

0

 

حضرت اسماء اور ان کی والدہ کا واقعہ

حضرت اسماء رضی اللہ تعالی عنہ فرماتی ہیں !کہ ایک مرتبہ میری والدہ میرے پاس آئیں۔۔ میں مسلمان ہو چکی تھی ۔اور میری والدہ ابھی مسلمان نہیں ہوئی تھیں۔ اس وقت وہ کافر ہی تھیں۔  میرے پاس آکر انہوں نے مجھ سے کچھ مانگا ۔میں حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئی۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا ! کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم میری والدہ آئیں ہوئیں ہیں ۔اور ان کی خواہش ہے کہ میں مال سے ان کی خدمت کروں۔۔ اس کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کیا فرماتے ہیں! کہ میں ان کو کچھ دوں یا نہ دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں تم ان کے ساتھ صلہ رحمی کرو ۔اگر تمہارے پاس کچھ ہے تو ان کو دے دو۔ اور ان کی خدمت کرو۔

 دوستو !  اس سے معلوم ہوا کہ صلہ رحمی اور خدمت گزاری میں کوتاہی نہ کریں۔ اگرچہ ماں باپ مشرک ہی کیوں نہ ہوں ۔۔  میرے دوستوں جب کافر ! ماں باپ کے ساتھ بھی اچھا سلوک کرنے کا حکم اللہ نے  دیا ہے۔ تو جن کے ماں باپ مسلمان ہیں ۔ان کے لیے کتنا ضروری ہے کہ وہ ماں باپ کے ساتھ ایسا سلوک کریں جس سے وہ خوش رہیں۔۔ تو اس کے لیے تو بہت زیادہ ضروری ہے۔ کہ ہم ان کی خدمت کریں ۔ان کا ہر حکم بجا لائیں ۔اور ان کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئیں ۔

 لیکن آج کی دنیا ہر معاملے میں الٹی جا رہی ہے۔۔ دوستو !اب تو باقاعدہ اس کی تربیت دی جا رہی ہے کہ ماں باپ کی فرمانبرداری ان کا ادب احترام اور ان کی عظمت اولاد کے دلوں سے نکالی جائے ۔۔اور یہ کہا جاتا ہے کہ ماں باپ بھی انسان ہیں۔ اور ہم بھی انسان ہیں۔ ہم میں اور ان میں کیا فرق ہے ؟اس لیے ہم پر ان کا کوئی حق نہیں ۔ یہ اس طرح کی باتیں اس وقت ہوتی ہیں جب انسان دین سے دور ہو جاتا ہے ۔۔اللہ اور اللہ کے رسول کی اطاعت کا جذبہ کمزور پڑ جاتا ہے۔۔ اور آخرت کی فکر ختم ہو جاتی ہے۔ تو اس وقت اس قسم کی باتیں پیدا ہو جاتی ہیں۔۔ اللہ تعالی اس سے ہماری حفاظت فرمائے ۔امین

بسم اللہ پڑھنے پر والد کی مغفرت کا واقعہ

0

https://rb.gy/rtmzhv

بسم اللہ پڑھنے پر والد کی مغفرت کا واقعہ

حضرت امام رازی رحمۃ اللہ لکھتے ہیں کہ ایک دفعہ حضرت عیسی علی نبینا علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک قبر سے گزر ہوا ۔۔آپ نے بطور کشف دیکھا کہ عذاب کے فرشتے میت کو عذاب دے رہے ہیں ۔آپ آگے تشریف لے گئے ‘  اپنے کام سے فارغ ہو کر جب دوبارہ آپ کا گزر اس قبر سے ہوا۔ تو آپ نے دیکھا کہ اس قبر پر رحمت کے فرشتے جمع ہیں۔ اور ان کے پاس نور کے طبق ہیں ۔آپ کو اس پر تعجب ہوا ۔آپ نے نماز پڑھی اور اس واقعے کی حقیقت معلوم کرنے کے لیے اللہ سے دعا کی اللہ تعالی نے وحی بھیجی فرمایا!   اے عیسی ! یہ بندہ گنہگار تھا اور جب سے مرا تھا عذاب میں گرفتار تھا۔ یہ مرتے وقت اپنی بیوی چھوڑ گیا تھا ۔جو کہ حاملہ تھی ۔اس عورت نے اس کے بیٹے کو جنم دیا ۔اور اس کی پرورش کی یہاں تک کہ وہ پڑھنے کے قابل ہو گیا ۔اس عورت نے اس بچے کو مکتب میں بھیجا ۔استاد نے اسے بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھائی ۔بس مجھے اپنے بندے سے حیا آئی کہ میں اس کو آگ کا عذاب دوں زمین کے اندر اور اس کا بیٹا میرا نام لیتا ہے زمین کے اوپر۔

سادہ زندگی

0

 

سادہ   زندگی

حضرت سہل بن سعد رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بعثت سے لے کر انتقال تک کبھی میدہ نہیں دیکھا۔۔۔ حضرت سہل رضی اللہ تعالی عنہ سے پوچھا گیا ۔کیا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں آپ لوگوں کے پاس چھلنی ہوتی تھی؟   تو انہوں نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بعثت سے لے کر انتقال تک کبھی چھلنی نہیں دیکھی تھی ۔۔تو ان سے پوچھا گیا ! کہ آپ لوگ جو کا آٹا بغیر چھانے ہوئے کیسے کھا لیتے تھے؟

 انہوں نے کہا ! کہ ہم جو کو پیس کر اس پر پھونک مارتے جو اڑنا ہوتا وہ اڑ جاتا باقی کو ہم گوند لیتے۔

دنیا سے احتراز

0

 

دنیا سے احتراز

حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ۔۔مجھ پر آج ایک ایسا فرشتہ نازل ہوا ہے جو مجھ سے پہلے کسی نبی پر نازل نہیں ہوا ۔۔۔اور نہ میرے بعد کسی پر اترے گا وہ اسرافیل علیہ السلام ہیں۔ انہوں نے کہا  ! اے محمد صلی اللہ علیہ ہ وسلم ،،،،،السلام علیکم !  میں آپ کے پروردگار کی طرف سے پیغمبر ہوں۔۔ انہوں نے مجھے امر فرمایا ہے ۔۔کہ میں آپ کو خبر کر دوں کہ آپ اگر چاہیں تو نبی اور عام بندہ بنیں ۔۔اور اگر چاہیں تو نبی اور بادشاہ بندہ بادشاہ بنیں۔۔ تو میں نے جبرائیل علیہ السلام کی طرف دیکھا ۔۔انہوں نے مجھے اشارہ کیا کہ توازہ اختیار کریں ۔۔تو آپ نے اس وقت فرمایا !  نبی اور بندہ پھر آپ نے فرمایا!

 اگر میں کہتا نبی اور بادشاہ پھر چاہتا تو پہاڑ سونا بن کر میرے ساتھ چلتے۔۔۔

 

دوسروں کا احترام کرنا

0

 

دوسروں کا احترام کرنا

                یہ کہانی ایک خوبصورت گاؤں کے بارے میں ہے جہاں ایک چھوٹا سا لڑکا، سلیم، رہتا تھا۔ سلیم بہت خوش اخلاق اور سمجھدار لڑکا تھا، لیکن ایک بات تھی جو اس میں اچھی نہیں تھی۔ وہ کبھی کبھار اپنے دوستوں اور بڑوں کا احترام کرنا بھول جاتا تھا۔

             سلیم کے والد، زاہد، ایک نرم دل اور سمجھدار آدمی تھے۔ وہ ہمیشہ سلیم کو سکھانے کی کوشش کرتے کہ دوسروں کا احترام کرنا بہت ضروری ہے، لیکن سلیم اکثر ان باتوں کو نظر انداز کر دیتا۔ اس کا خیال تھا کہ احترام صرف ان لوگوں کا کرنا چاہیے جو اس کے قریبی ہیں، باقی لوگوں کا نہیں۔

                ایک دن سلیم اپنے دوستوں کے ساتھ گاؤں کے میدان میں کھیل رہا تھا۔ کھیل کے دوران حارث نے  سلیم کے ہار جانے پر سلیم کا خوب مذا ق اوڑ ا یا ۔ سلیم نے غصے میں آکر حارث کو جھڑک دیا اور اس کے ساتھ بدتمیزی سے بات کی۔ حارث بہت ناراض ہوا اور چپ چاپ کھیل سے باہر نکل گیا۔

               شام کو جب سلیم گھر واپس آیا تو اس کی والدہ نے دیکھا کہ وہ  بہت اداس ہے  اور خاموش خاموش ہے ۔ انہوں نے سلیم سے پوچھا، “بیٹا، تمہارا چہرہ کیوں اترا ہوا ہے؟ کیا ہوا؟”

                     سلیم نے سارا واقعہ اپنی والدہ کو بتایا۔ والدہ نے نرمی سے کہا، “بیٹا، کھیل میں ہار جیت تو ہوتی رہتی ہے اس میں اداس ہونے والی کوئی بات نہیں ہے ۔ اور آ پ کو حارث کے ساتھ بدتمیزی نہیں کرنی چاہئے  تھی۔۔  بیٹا  ! دوسروں کا احترام کرنا بہت ضروری ہے۔ اگر ہم دوسروں کا احترام نہیں کریں گے، تو وہ بھی ہمارا احترام نہیں کریں گے۔

              سلیم نے کہا!  “لیکن اگر کوئی ہمیں تنگ کرے یا مذاق اڑائے، تو ہم اسے کیوں برداشت کریں؟”

اس کی والدہ نے سمجھاتے ہوئے کہا، “بیٹا، اسلام ہمیں دوسروں کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کا حکم دیتا ہے، چاہے وہ ہم سے  کیسا بھی سلوک کریں۔ ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں سکھایا ہے کہ ہمیں ہر انسان کے ساتھ نرمی اور عزت سے پیش آنا چاہیے۔”

سلیم نے سر ہلا کر کہا، “امی، میں سمجھتا ہوں، لیکن کیا آپ مجھے کوئی اور مثال دے سکتی ہیں؟”    

            والدہ نے کہا، “بیٹا، تم نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی کی کہانی سنی ہوگی کہ وہ ہمیشہ دوسروں کا احترام کرتے تھے، چاہے وہ چھوٹے ہوں یا بڑے۔  آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی کا دل نہیں دکھاتے تھے ۔یہاں تک کہ اپنے غلاموں کے ساتھ بھی نرمی سے پیش آتے تھے ۔ ان کے ساتھ کبھی اونچی آواز میں بات تک نہیں کی ، حسن اخلاق کی اعلی مثال ہیں ہمارے پا ک نبی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، اور ہمیں پاک نبی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے  نقش قدم پر ہی چلنا چاہیے ۔

                  سلیم نے یہ کہانی سنی اور اس کے دل میں احترام کی اہمیت جاگ اٹھی۔ اس نے فیصلہ کیا کہ وہ آئندہ ہمیشہ دوسروں کا احترام کرے گا، چاہے حالات کیسے بھی ہوں۔

             اگلے دن سلیم اسکول گیا اور اس نے دیکھا کہ اس کا دوست حارث چپ چاپ بیٹھا ہوا ہے۔ سلیم کو اپنی کل کی غلطی یاد آئی اور اس نے سوچا کہ اسے حارث سے معافی مانگنی چاہیے۔ سلیم حارث کے پاس گیا اور نرمی سے کہا، “حارث، میں کل تمہارے ساتھ بدتمیزی سے پیش آیا تھا، مجھے معاف کر دو۔”

حارث نے سلیم کی بات سنی اور اس کے چہرے پر مسکراہٹ آ گئی۔ اس نے سلیم کو معاف کر دیا اور دونوں پھر سے اچھے دوست بن گئے۔

اس کے بعد سلیم نے یہ عزم کر لیا کہ وہ ہمیشہ دوسروں کا احترام کرے گا۔ اس نے اپنے دوستوں، اساتذہ، اور گاؤں کے بزرگوں کے ساتھ نرمی اور عزت سے پیش آنا شروع کر دیا۔ جب بھی کوئی مشکل صورتحال پیش آتی، وہ اپنے نبی کی تعلیمات کو یاد کرتا اور خود کو قابو میں رکھتا۔

                ایک دن سلیم کی کلاس میں ایک نیا لڑکا، فہد، آیا۔ فہد بہت شرمیلا تھا اور اسے نئے اسکول میں ایڈجسٹ ہونے میں مشکل ہو رہی تھی۔ سلیم نے دیکھا کہ کچھ بچے فہد کا مذاق اڑا رہے ہیں اور اسے تنگ کر رہے ہیں۔ سلیم فوراً آگے بڑھا اور ان بچوں کو روکا۔ اس نے فہد کا ہاتھ پکڑا اور اسے اپنی دوستوں کی جماعت میں شامل کر لیا۔ سلیم نے فہد کو اسکول کے قواعد و ضوابط بتائے اور اس کے ساتھ نرمی سے پیش آیا۔

        فہد سلیم کے اس رویے سے بہت متاثر ہوا اور جلد ہی وہ دونوں اچھے دوست بن گئے۔ فہد نے سلیم کا شکریہ ادا کیا اور کہا، “سلیم، تم بہت اچھے انسان ہو۔ تم نے مجھے یہاں قبول کیا اور میری مدد کی، میں تمہارا شکر گزار ہوں۔

            سلیم نے مسکرا کر کہا، “فہد، ہم سب کو ایک دوسرے کا احترام کرنا چاہیے۔ یہی چیز ہمیں ایک اچھا انسان بناتی ہے۔”

                   اس دن کے بعد سلیم نے ہمیشہ اس بات کا خیال رکھا کہ وہ دوسروں کا احترام کرے اور ان کے جذبات کا خیال رکھے۔ اس نے سیکھ لیا تھا کہ احترام صرف الفاظ سے نہیں ہوتا، بلکہ ہمارے اعمال اور رویے سے ظاہر ہوتا ہے۔

        کہانی کا پیغام یہ ہے کہ دوسروں کا احترام کرنا نہ صرف ہماری اخلاقی ذمہ داری ہے بلکہ یہ ہمیں ایک اچھا مسلمان اور ایک اچھا انسان بناتا ہے۔ اسلام ہمیں سکھاتا ہے کہ ہمیں ہر شخص کا احترام کرنا چاہیے، چاہے وہ کوئی بھی ہو، اور ہمیں دوسروں کے ساتھ ویسا ہی سلوک کرنا چاہیے جیسا ہم اپنے لیے چاہتے ہیں۔ سلیم کی کہانی ہمیں یہ یاد دلاتی ہے کہ احترام ایک ایسی خوبصورتی ہے جو ہمارے دلوں کو خوبصورت بناتی ہے اور ہمیں لوگوں کے دلوں میں جگہ دیتی ہے۔