Hazrat Wasif Ali Quotes in Urdu

Hazrat Wasif Ali Wasif was a renowned Pakistani Sufi poet, writer, and philosopher, admired for his deep spiritual insight and wisdom-filled writings. Born on January 15, 1929, in Khushab, he completed his early education in his hometown and pursued higher studies in Lahore. Wasif Ali Wasif emerged as a unique spiritual guide whose teachings and thoughts attracted countless people seeking enlightenment.

His writings are known for their simplicity yet profound depth, touching on various aspects of life, spirituality, and the human soul. Some of his most famous works include “Kiran Kiran Sooraj,” “Qatra Qatra Qulzam,” and “Dil Darya Samundar,” where he reflects on the spiritual journey of self-realization and human nature. His quotes and essays, later compiled into books, continue to resonate with readers for their timeless wisdom and relevance.

Wasif Ali Wasif’s life was a beacon of love, humility, and humanity. His teachings emphasized the importance of self-awareness, love for all, and connecting with the Divine. Though he passed away on January 18, 1993, his legacy lives on through his profound spiritual guidance, and he remains an inspiration for millions seeking inner peace and truth.

ظرف ہوتا کیا ہے؟ ظرف جو ہے یہ برداشت کرنے کی صلاحیت ہے ۔اور آپے سے باہر نہ ہونے کی صلاحیت ۔مثلا اگر بہت پیسہ آ جائے تو بیکی بیکی باتیں نہ کرنا اور اگر بہت غریبی آ جائے۔ تو مایوسی کی باتیں نہ کرنا ۔۔ بہت ساری عبادت مل جائے یا پھر اللہ تعالی بہت سارے اختیارات دے دے۔۔ تو یہ نہ کہنا کہ تمہیں میں اڑا کے رکھ دوں گا ظرف یہ ہوتا ہے کہ توازن میں رہنا ہے۔۔

اپنی اولاد کو اپنا علم نہ دینا کیونکہ اولاد نے اپنے زمانے کا علم لینا ہے۔ پتہ نہیں تم کون سا علم دے دو۔ کوئی پرانا علم دے دو اور انہوں نے کمپیوٹر چلانے ہیں اور پتہ نہیں کیا کیا کرنا ہے ۔اس لیے ان کو اپنی زندگی گزارنے دو ۔۔دعا یہی کرو کہ اللہ ان کو ایمان دے۔ اسلام سکھا دو۔ کلمے پڑھا دو۔ اور ان کو خود کوئی نیک عمل کر کے دکھا دو ۔ اس طرح ان کی اچھی بنیاد پڑ جائے گی۔ خوامخواہ مشتعل نہ ہوا کرو۔

ڈپریشن کیوں ہوتی ہے؟ ڈپریشن انسان کو اس وقت ہوتی ہے جب وہ چاہتا کچھ اور ہے۔ اور اس سے ملتا کچھ اور ہے۔ اور جو اسے ملتا ہے اس کو وہ پسند نہیں کرتا۔ تو دو چیزیں ہوتی ہیں جو ڈپریشن کا باعث بنتی ہیں ۔ایک تو یہ کہ پسند نہ ملے دوسری یہ کہ ناپسند مل جائے۔ یعنی وہ جو چاہا وہ نہ ملا ۔اور جو ملا وہ پسند نہیں ہے ۔تو ڈپریشن کا معنی یہ ہے کہ تقدیر نصیب یا حاصل اور خواہش کے درمیان فاصلے کا نام ہے ۔

محبت صرف رابطے کا نام ہے وہ پرندے جو سرد علاقوں سے گرم علاقوں کی طرف ہجرت کرتے ہیں۔ وہ برفوں میں چھوڑے ہوئے اپنے انڈوں سے بھی رابطہ رکھتے ہیں۔ اور یہاں تک بھی کہا جاتا ہے کہ اپنے دل اور اپنی نگاہ کی گرمی سے انڈوں کو گرم رکھتے ہیں انہیں سیتے ہیں۔۔

غلط ارادے کی کامیابی گناہ ہے اور صحیح ارادے کی ناکامی بھی ثواب ہے اپنے ارادے کی اصلاح کرو

جو شخص اس لیے اپنی اصلاح کر رہا ہے کہ دنیا اس کی تعریف و عزت کرے ۔۔۔اس کی اصلاح نہیں ہوگی اپنی نیکیوں کا صلہ دنیا سے مانگنے والا انسان نیک نہیں ہو سکتا۔۔۔ ریا کار اس عابد کو کہتے ہیں جو دنیا کو اپنی عبادت سے مرعوب کرنا چاہے۔۔۔۔

جب تک صادق محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی صداقت پر اعتماد نہ ہو ہم توحید کی تصدیق نہیں کر سکتے ۔۔۔

دانا نادانوں کی اصلاح کرتا ہے ۔عالم بے علم کی اور حکیم بیماروں کی۔ وہ حکیم علاج کیا کرے گا ؟جس کو مریض سے محبت ہی نہ ہو ۔۔اسی طرح وہ مصلح جو گناہ گاروں سے نفرت کرتا ہے ۔۔ان کی اصلاح کیا کرے گا ؟ ہر صفت اپنی مخالف صفت پر اثر کرنا چاہتی ہے ۔لیکن نفرت سے نہیں محبت سے ۔۔

اگر زندگی بچانے کی قیمت پوری زندگی بھی مانگی جائے تو انکار نہ کرنا

باطن ایک علم ہے جس کو عطا ہو جائے وہ اسے باطن نہیں کہتا ۔۔۔بلکہ ظاہر ہی کہتا ہے علم باطن سے ظاہر میں آتا رہتا ہے۔۔ اسی طرح وہ غیب جس کا علم عطا ہو جائے ۔۔وہ غیب نہیں کہلاتا ۔۔غیب وہ ہے جس کا علم بندے تک نہیں پہنچتا ۔۔یہ صرف اللہ کے پاس ہے ایسے غیب کا تذکرہ بھی نہیں ہو سکتا۔۔ اور اللہ کے لیے کچھ غیب نہیں۔۔

ہم صرف زبان سے اللہ، اللہ کہتے رہتے ہیں۔۔۔ اللہ لفظ نہیں ۔۔اللہ آواز نہیں۔۔ اللہ پکار نہیں۔۔ اللہ تو ذات ہے ۔۔مقدس و مارو ا۔۔اس ذات سے دل کا تعلق ہے۔۔۔ زبان کا نہیں۔۔ دل اللہ سے متعلق ہو جائے تو ہمارا سارا وجود دین کے سانچے میں ڈھل جانا لازمی ہے۔۔۔

سچے انسان کے لیے یہ کائنات عین حقیقت ہے ۔ اور جھوٹے کے لیے یہی کائنات حجاب حقیقت ہے۔

پرانے بادشاہ ہاتھی کی سواری سے جلال شاہی کا اظہار کرتے تھے۔ آج ہمارے بچے چڑیا گھروں میں ہاتھی کی سواری سے دل بہلاتے ہیں۔

رزق صرف یہی نہیں کہ جیب میں مال ہو۔۔۔۔ بلکہ آنکھوں کی بینائی بھی رزق ہے۔۔۔ دماغ میں خیال رزق ہے ۔۔دل کا احساس رزق ہے۔۔ رگوں میں خون رزق ہے۔۔۔ یہ زندگی ایک رزق ہے۔۔ اور سب سے بڑھ کر ایمان بھی رزق ہے۔۔۔

آواز کا بلند ہونا ادب کی کمی ہے۔

انسان نے آسمانوں کے راستے دریافت کیے ہیں۔ لیکن اسے دل کا راستہ نہیں ملا۔

دل کسی سے کتنا بھی خفا ہو جائے۔ تم خاموش ہو جانا لیکن بے ادبی نہ کرنا۔

دنیا دار کے لیے جہاں صبر کا حکم ہے۔ وہاں اللہ والوں کے لیے شکر کا حکم ہے۔

بس یہ یاد رہے کہ وہ آپ کو آپ کی آنکھ سے دیکھ رہا ہے

 

دعا مانگنے والا یہ اعلان کر رہا ہوتا ہے کہ

اللہ کریم ایک ایسی ذات ہے جو میری بات قریب سے سنتا ہے

اللہ تعالی آپ کو اپنے آپ سے بچائے آپ ہی اپنے دشمن ہو اللہ تعالی ان چیزوں کا شوق نہ دے جو اللہ کے شوق میں رکاوٹ ڈالتی ہے۔

جب موت سے پہلے موت کا مقام سمجھ آ جائے تو موت کے بعد ملنے والے انعام موت سے پہلے ملنے شروع ہو جاتے ہیں۔

زندگی کے بہترین دور کے بارے میں لوگوں سے پوچھیں تو جواب ملے گا کہ اچھا زمانہ گزر چکا ہے یا ابھی آیا ہی نہیں حالانکہ اچھا دور وہ ہے جو آج گزر رہا ہے۔

 

Leave A Reply

Please enter your comment!
Please enter your name here